نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا ایک پراسرار پہلو مریضوں میں 'دماغی دھند' یعنی ایک قسم کی ذہنی الجھن ہے، جس کا سامنا سنگین حد تک بیمار افراد کو ہوتا ہے اور اکثر اوقات یہ مسئلہ صحتیابی کے بعد بھی برقرار رہتا ہے۔

مگر ایک نئی تحقیق میں اس کی ممکنہ وجہ سامنے آئی ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کے دماغوں میں خلیات کا غیرمعمولی اجتماع ہوجاتا ہے جو ممکنہ طور پر اس مسئلے کا باعث بنتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ ہم اس صورتحال کے بارے میں بات کررہے ہیں جب مریضوں کو اپنے ذہن میں دھند چھائی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب آپ بہت زیادہ تھکاوٹ کے شکار ہوں اور ذہنی سرگرمیاں معمول کے مطابق نہ ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کو کووڈ 19 کے مریضوں نے علاج کے دوران اور صحتیابی کے بعد بھی رپورٹ کیا۔

امریکا کی جونز ہوپکنز یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارا خیال تھا کہ اس کی وجہ دماغ پر اثرات ہیں۔

تو اس کی جانچ پڑتال کے لیے ماہرین نے کووڈ 19 کے نتیجے میں ہلاک ہوجانے والے مریضوں کے دماغوں کا تجزیہ کیا۔

اپریل سے مئی 2020 کے دوران ہلاک ہونے والے 15 مریضوں کے ساتھ 2 ایسے ہلاک ہونے والے افراد کے دماغوں کا جائزہ لیا گیا جو اس بیماری سے متاثر نہیں تھے۔

محققین کے لیے پہلا دھچکا یہ تھا کہ انہیں کسی وائرل بیماری کی روایتی نشانیاں جیسے ورم کے آثار نہیں ملے۔

دوسرا دھچکا یہ تھا کہ انہوں نے دماغ کے حصے capillaries میں میگا کاریوسائٹ نامی خلیات کی غیرمعمولی تعداد نظر آئی جو محققین نے پہلے کبھی کسی دماغ میں نہیں دیکھی تھی۔

یہ خلیات عام طور پر بون میرو میں ہوتے ہیں، جہاں خون کے سرخ اور دیگر خلیات بنتے ہیں، یہ خلیات زخم کو ٹھیک ہونے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

تاہم محققین کا کہنا تھا کہ ان خلیات کو دماغ میں دیکھنا بہت زیادہ غیرمعمولی تھا کیونکہ یہ جس حصے میں تھے وہ ٹیوبس جیسا ہوتا ہے جو دماغ میں آکسیجن پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ ان خلیات کو وہاں دریافت کرنا ایسا تھا جیسے فٹبال کا سامان گھر کے کسی بہت چھوٹے پائپ میں مل جائے، جہاں سے کچھ بھی گزرنے کا راستہ رک جائے۔

محققین نے ان خلیات کو کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے ایک تہائی افراد میں دریافت کیا۔

تحقیق کے نتائج طبی جریدے جانا نیورولوجی میں شائع ہوئے۔

مگر کیا اس کی وجہ سے مریضوں کو دماغی دھند کا سامنا ہوتا ہے؟ تو اس پر محققین نے زور دیا کہ فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ پہلا قدم ہے اور اب ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ خلیات دماغ میں کیوں ہوتے ہیں اور وہ کونسا سگنل ہے جو انہیں دماغ تک پہنچا دیتا ہے، کیا یہ کوئی بہت مختلف قسم کا ورم ہے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا اور کیا اسی وجہ سے دماغی دھن اور فالج کے خطرے کا سامنا ہوتا ہے؟

انہوں نے کہا کہ ان مریضوں میں سے کسی کو بھی فالج کا سامنا نہیں ہوا تھا، مگر ہمارا قیاس ہے کہ اگر جسم میں کلاٹنگ کا عمل ہورہا ہو، تو فالج کا خطرہ ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔

کورونا وائرس سے نجات حاصل کرنے والے افراد کے مطابق دماغی دھند سے ان کی کام اور معمول کے افعال کی اہلیت متاثر ہوئی ہے۔

امریکا کے نارتھ ویسٹرن میڈیسین میں دماغی امراض کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ایگور کورولنک کے مطابق 'ہزاروں افراد کو ان مسائل کا سامنا ہے اور کووڈ 19 سے صحتیاب ایسے سیکڑوں افراد کا معائنہ کرچکے ہیں، ورک فورس پر اس کے اثرات بہت نمایاں ہوں گے'۔

ماہرین اس حوالے سے پریقین نہیں کہ کس وجہ سے لوگوں کو دماغی دھند کا سامنا ہورہا ہے ، جس کی مختلف علامات لوگوں میں نظر آرہی ہیں اور ایسے افراد بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں جن میں کووڈ 19 کی شدت معتدل تھی اور پہلے سے کسی بیماری کے شکار نہیں تھے۔

اس حوالے سے خیال کیا جارہا ہے کہ وائرس کے خلاف جسم کا مدافعتی ردعمل بدستور متحرک رہتا ہے یا خون کی شریانوں میں ورم دماغ تک پہنچ جاتی ہے۔

کووڈ 19 کے دوران نظام تنفس کے مسائل کے باعث ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کو ذہنی الجھن اور دیگر دماغی افعال متاثر ہونے کے کیسز سامنے آئے ہیں۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایسے مریضوں کو زیادہ وقت تک ہسپتال میں رہنے کی ضرورت پڑتی ہے، جبکہ اموات کی شرح زیادہ اور ہسسپتال سے فارغ ہونے کے بعد اکثر روزمرہ کی سرگرمیوں کو بحال نہیں کرپاتے۔

اگست میں فرانس میں ہونے والی ایک تحقیق کے نتائج سامنے آئے تھے، جس میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے کووڈ 19 کے 120 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد 34 فیصد کو یادداشت کی محرومی اور 27 فیصد کو توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوا۔

ایک حالیہ سروے (جس کے نتائج جلد شائع ہوں گے) میں لگ بھگ 4 ہزار کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔

اس تحقیق میں شامل انڈیانا یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی ایسوسی ایٹ ریسرچ پروفیسر نٹالی لمبرٹ نے بتایا کہ 50 فیصد سے زیادہ افراد نے صحتیابی کے بعد توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوا۔

یہ 101 طویل المعیاد اور مختصر المدت علامات کی فہرست میں چوتھی سب سے عام علامت ہے، یادداشت کے مسائل، سرچکرانے یا الجھن کی شکایت ایک تہائی سے زیادہ افراد نے کی۔

دماغی دھند کا جولائی کے بعد سے سامنا کرنے والے 60 سالہ رک سولیون کے مطابق 'یہ کمزور کردینے والا ہے، میں لگ بھگ وہمی بن کا ہوں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں سکون آور ادویات کے زیراثر ہوں'۔

تبصرے (0) بند ہیں