برطانوی سائنسدانوں نے زور دیا ہے کہ تھکاوٹ، سردرد، گلے میں تکلیف اور ہیضے کو کووڈ 19 کے ٹیسٹ کے لیے درکار علامات کا حصہ بنایا جائے۔

اس وقت برطانیہ میں کھانسی، بخار اور سونگھنے یا چکھنے کی حسوس سے محرومی پر کووڈ ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

کنگز کالج لندن اور زوئی سیمپٹم اسٹڈی ایپ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اضافی علامات کو فہرست کا حصہ بنانے سے 40 فیصد مزید کیسز کی تشخیص ممکن ہوسکے گی۔

زوئی سیمپٹم اسٹڈی ایپ کی ٹیم نے سب سے پہلے سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی کو کووڈ کی علامت کے طور پر شناخت کیا تھا اور بعد ازاں برطانیہ میں علامات کی سرکاری فہرست کا حصہ بنایا گیا۔

انہوں نے اس علامت کی شناخت اس وقت کی جب ایسے افراد نے کووڈ سیمپٹم ایپ موبائل ایپ کو استعمال کیا، جن میں بعد میں بیماری کی تصدیق ہوئی۔

ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد کی جانب سے ایپ میں ممکنہ علاممات کے اندراج کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے 12 سو سے زیادہ میں بیماری کی تصدیق ہوئی۔

اس تجزیے سے محققین کو 7 عام علامات کو شناخت کرنے میں مدد ملی۔

ان میں سے 3 تو کووڈ کی کلاسیک علامات ہیں یعنی نئی اور مسلسل جاری رہنے والی کھانسی، بخار اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی۔

ان کے علاوہ 4 دیگر علامات کا حوالہ اوپر دیا جاچکا ہے یعنی تھکاوٹ، ہیضہ، گلے میں تکلیف یا سوجن اور سردرد۔

ایپ میں ان میں سے کسی ایک علامت کو رپورٹ کرنے والے فرد کو بلا کر پی سی آر ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور محققین کے خیال میں یہ کووڈ کے ابتدائی مرحلے کی علامات ہوسکتی ہیں، تاہم یہ ویسے بھی عام بیماریاں ہیں اور ان کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں۔

محققین نے تسلیم کیا کہ اس حکمت علی میں ممکن ہے کہ زیادہ تر افراد میں وائرس کی تصدیق نہ ہو اور ٹیسٹوں میں کمی کے باعث ہوسکتتا ہے کہ ایسا ممکن نہ ہو۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب ٹیسٹ کی کمی کا سامنا نہ ہو تو ہر مثبت کیس سے زندگیاں بچانے میں مدد مل سکتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ وبا کے آغاز سے ٹیسٹنگ کے لیے کلاسیک علامات پر توجہ مرکوز کرنے سے متعدد کیسز کی تشخیص نہیں ہوسکی۔

انہوں نے بتایا کہ عوام کے لیے پیغام واضح ہے کہ اگر حال ہی میں طبیعت خراب ہوئی ہے، تو یہ کووڈ کا نتیجہ ہوسکتا ہے اور ٹیسٹ کرالینا چاہیے۔

ان کے بقول کورونا وائرس کی نئی اقسام کے مدنظر یہ بہت اہم ہے کیونکہ ان کی علامات مختلف ہوسکتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں