آڈیٹر جنرل پاکستان، نیشنل بینک کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرسکتا ہے، پی اے سی کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 18 فروری 2021
این بی پی نے 2012 سے اے جی پی کو اپنے مالی ریکارڈ تک رسائی نہیں دی ہے - فائل فوٹو:اے پی پی
این بی پی نے 2012 سے اے جی پی کو اپنے مالی ریکارڈ تک رسائی نہیں دی ہے - فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے فیصلہ دیا ہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کا آڈٹ کرسکتی ہے کیونکہ این بی پی نے 2012 سے اے جی پی کو اپنے مالی ریکارڈ تک رسائی نہیں دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے جی پی کئی دہائیوں سے اس بینک کا آڈٹ کر رہا تھا تاہم 2012 میں این بی پی انتظامیہ نے سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) سے رجوع کیا اور بعد میں اے جی پی کو اپنے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرنے سے روک دیا۔

ڈائریکٹر جنرل (تجارتی آڈٹ) الطاف احمد شیخ نے پی اے سی کو آگاہ کیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے اس طرح کا کوئی حکم امتناع جاری نہیں کیا ہے۔

مزید پڑھیں: اے جی پی دفتر نے ڈھائی سال میں مختلف محکموں سے 490 ارب روپے برآمد کرلیے

انہوں نے عدالتی حکم کو پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ 'بینک کے خلاف کوئی منفی کارروائی نہیں کی جائے گی'۔

ڈی جی نے استدلال کیا کہ آڈٹ 'منفی کارروائی' نہیں بلکہ سسٹم میں موجود کمزوریوں کی نشاندہی کرنے کے لیے ایک سازگار اقدام تھا جو اچھی حکمرانی کا باعث بن سکتا ہے۔

گزشتہ 8 سالوں سے این بی پی انتظامیہ نے سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے بہانے آڈیٹرز کو اجازت نہیں دی تھی۔

الطاف احمد شیخ نے کمیٹی کو بتایا کہ اے جی پی آفس نے وزارت قانون و انصاف سے رائے طلب کی تھی جس کی رائے تھی کہ اے جی پی آئین کے آرٹیکل 169 کے تحت وفاقی یا صوبائی حکومت کے قائم کردہ کسی بھی ادارے کا آڈٹ کرسکتا ہے۔

پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے پھر سیکریٹری خزانہ کامران علی افضل سے کہا کہ وہ وضاحت کریں کہ کیا این بی پی کا درجہ اے جی پی کے دائرہ کار میں آتا ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اکاؤنٹس کے آڈٹ پر اے جی پی اور انجینئرنگ کونسل کے مابین تنازع

کامران علی افضل نے کہا کہ عدالتی حکم اے جی پی کے لیے کوئی روک ٹوک کا حکم نہیں ہے اور چونکہ وزارت قانون نے بھی اس معاملے میں رائے دی ہے لہذا انہوں نے این بی پی کو مشورہ جاری کیا ہے کہ وہ اس کے اکاؤنٹس کو اے جی پی کے ذریعے آڈٹ کروائیں۔

این بی پی کے صدر عارف عثمانی نے پی اے سی کو آگاہ کیا کہ ان کے اکاؤنٹس کا آڈٹ چھ سے سات آڈٹ ادارے کر رہے ہیں جن میں ریگولیٹر اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے این بی پی کا جامع آڈٹ کیا ہے اور وہ آڈٹ کی مختلف رپورٹس کو اے جی پی کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے تیار ہیں۔

پی اے سی کے چیئرمین نے کہا کہ 'اے جی پی ایک آئینی ادارہ ہے جس کا قیام حکومتی اداروں کا آڈٹ کروانے کے لیے کیا گیا ہے لہذا آپ انہیں ان کی آئینی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے نہیں روک سکتے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'این بی پی زیادہ سے زیادہ آڈٹ اداروں کی خدمات حاصل کرسکتا ہے جتنا انہیں شفافیت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہو تاہم آئینی ادارے کو ان کے جائز فرائض کو انجام دینے سے روکنا ناقابل قبول تھا'۔

تبصرے (0) بند ہیں