بابراعظم کے خلاف مقدمہ ملک کیلئے بدنامی کا باعث ہے، لاہور ہائیکورٹ

اپ ڈیٹ 03 مارچ 2021
بابراعظم کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کاحکم سیشن عدالت نے دیا تھا-فائل/فوٹو: اے ایف پی
بابراعظم کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کاحکم سیشن عدالت نے دیا تھا-فائل/فوٹو: اے ایف پی

لاہور ہائی کورٹ نے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے خلاف خاتون حامیزہ مختار کے مقدمے کو ملک کی بدنامی کا باعث قرار دیا اور سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس اسجد جاوید گھرال نے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی جانب سے ان پر مقدمہ دائر کرنے کے حکم کے خلاف دی گئی درخواست پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: بابراعظم کے خلاف مقدمے کے اندراج کے حکم امتناع میں توسیع

عدالت نے درخواست گزار سے کہا کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) مکمل ہونے دیں پھر مقدمہ سن لیں گے۔

جسٹس اسجد جاوید گھرال نے ریمارکس میں کہا کہ نجانے اس مقدمے کا فیصلہ کس طرف جائے گا لیکن ملک کی بدنامی ہوگی۔

اس موقع پر کپتان بابر اعظم پر الزامات لگانے والی حامیزہ مختار بھی عدالت میں موجود تھیں۔

بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے مقدمے کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی کر دی۔

لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ سماعت میں بابر اعظم کے خلاف حامیزہ مختار کی جانب سے دائر مقدمے پر عائد کیے گئے حکم امتناع میں مزید توسیع کر دی تھی جبکہ جہاں نصیر آباد پولیس نے عدالتی حکم پر رپورٹ بھی پیش کر دی تھی۔

بابر اعظم کی جانب سے حارث عظمت ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا تھا کہ سیشن عدالت نے حقائق کے برعکس بابر اعظم کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔

انہوں نے استدعا کی تھی کہ بابر اعظم کے خلاف درج مقدمے کے حکم پر عمل درآمد روکا جائے اور قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے خلاف درج مقدمے پر کارروائی غیر قانونی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔

عدالت نے حامیزہ مختار کے وکیل کو تیاری کے لیے مہلت دیتے ہوئے بابر اعظم کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا سیشن کورٹ کے حکم پر عمل درآمد روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کر دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بابراعظم کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم معطل

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ لاہور کی سیشن کورٹ نے نصیرآباد پولیس کو بابر اعظم کے خلاف فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعہ 154 کے تحت خاتون کا بیان قلم بند اور قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دیا تھا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد نعیم نے حمزہ مختار کے ذریعے دائر درخواست کو نمٹاتے ہوئے مشاہدہ کیا تھا کہ ملزم پر اسقاط حمل اور شادی کی جھوٹی یقین دہانی پر دھوکا دہی سے جسمانی تعلق جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں، درخواست گزار کی درخواست کو بغور پڑھنے سے بادی النظر میں قابل سزا جرم کا کمیشن بنایا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جج نے نصیر آباد اسٹیشن ہاؤس آفیسر کو ہدایت کی تھی کہ وہ خاتون کا بیان فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعہ 154 کے تحت درج کریں اور قانون کے مطابق سختی سے آگے بڑھیں، جج نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ پولیس رپورٹ درخواست کے حقائق سے یکسر مختلف ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ میں بابراعظم کے اہلخانہ کے خلاف خاتون کی ہراسانی کی درخواست

خاتون نے درخواست میں بابر اعظم پر الزامات عائد کیے تھے کہ انہوں نے جنسی تعلقات برقرار رکھتے ہوئے شادی کے جھوٹے وعدے کیے، انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ 2015 میں وہ بابر اعظم کے بچے کے ساتھ حاملہ ہوگئی تھیں لیکن انہیں اسقاط حمل کروانا پڑا تھا۔

کرکٹر کے وکیل نے کہا تھا کہ درخواست گزار نے پہلے بھی یہی الزامات عائد کرنے والی ایک درخواست واپس لے لی تھی اور متعلقہ تھانے میں بیان حلفی جمع کرایا تھا، انہوں نے اسقاط حمل کے الزام کو بھی متنازع قرار دیا۔

بعد ازاں 15 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ نے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا سیشن کورٹ کا حکم معطل کرتے ہوئے متعلقہ ایس ایچ او کے ساتھ ساتھ درخواست گزار حامزہ مختار سے تحریری جواب طلب کر لیا تھا۔

حارث عظمت ایڈووکیٹ نے نشاندہی کی تھی کہ سیشن عدالت نے حقائق کے برعکس بابر اعظم کے خلاف اندراج مقدمہ کا حکم دیا ہے اور حامزہ مختار نے بابر اعظم کو بلیک میل کرنے کے لیے بے بیناد درخواست دائر کی۔

تبصرے (0) بند ہیں