بھارت کے آزاد اقوام کی صفوں سے نکلنے پر افسوس ہے، امریکی رپورٹ

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2021
2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ہی ملک میں سیاسی حقوق اور شہری آزادی کی صورتحال خراب ہونا شروع ہوگئی تھی، رپورٹ - فائل فوٹو:اے ایف پی
2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ہی ملک میں سیاسی حقوق اور شہری آزادی کی صورتحال خراب ہونا شروع ہوگئی تھی، رپورٹ - فائل فوٹو:اے ایف پی

واشنگٹن: امریکی رپورٹ میں بھارت کے آزاد اقوام کی صفوں سے نکلنے پر افسوس کے اظہار کے بعد امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں آمریت پسندی اور قوم پرستی عروج پر ہے۔

امریکی حکومت کے فنڈ سے چلنے والے تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس کی تیار کردہ ورلڈ 2021 رپورٹ میں کہا گیا کہ '(وزیر اعظم نریندر مودی) کے تحت ایسا لگتا ہے کہ بھارت نے عالمی جمہوری رہنما کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کی اپنی صلاحیت کو ترک کر دیا ہے جس میں ان کے بنیادی اقدار اور سب کے لیے مساوی حقوق کی قیمت پر تنگ نظر ہندو قوم پرست مفادات کو بلند کیا گیا ہے'۔

سیکریٹری ٹونی بلنکن نے اپنی پہلی خارجہ پالیسی تقریر میں اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'دنیا بھر میں آمریت اور قوم پرستی عروج پر ہے، حکومتیں کم شفاف ہوتی جارہی ہیں اور لوگوں کا اعتماد کھو چکی ہیں'۔

مزید پڑھیں: بھارت کے یوم جمہوریہ پر کشمیریوں کا یوم سیاہ، دنیا بھر میں احتجاج

انہوں نے جنوری میں اپنے ملک میں انتخابات کے بعد ہونے والے تشدد کا بھی حوالہ دیا جب ایک ہجوم نے انتخابی نتائج کو کالعدم بنانے کے لیے کانگریس پر حملہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'انتخابات میں تشدد تیزی سے فلیش پوائنٹ بن رہے ہیں، کرپشن بڑھ رہی ہے اور وبائی امراض نے ان میں سے بہت سے رجحانات کو تیز کردیا ہے، جمہوریت کا خاتمہ نہ صرف دیگر مقامات پر ہورہا ہے بلکہ یہ یہاں امریکا میں بھی ہو رہا ہے'۔

'فریڈم ان ورلڈ' کے نام سے رپورٹ میں امریکی اسکور گزشتہ دہائی کے دوران 11 پوائنٹس کم اور صرف 2020 میں 3 پوائنٹس کم ہوا ہے۔

2021 میں عالمی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ میں 'آزاد ممالک کے اعلیٰ درجے سے بھارت کے نکلنے' پر افسوس کا اظہار کیا گیا جس کے حوالے سے خبردار کیا گیا کہ اس سے 'عالمی جمہوری معیاروں پر خاص طور پر نقصان دہ اثر پڑ سکتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کے لال قلعے پر سکھوں کا مقدس جھنڈا لہرا دیا گیا

اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ '2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ملک میں سیاسی حقوق اور شہری آزادی کی صورتحال خراب ہونا شروع ہوگئی، انسانی حقوق کی تنظیموں پر دباؤ بڑھا، قابل لوگوں اور صحافیوں کو دھمکیوں میں اضافہ ہوا اور مسلمانوں کے قتل سمیت تعصب انگیز حملوں میں اضافہ ہوا'۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مودی کے 2019 میں دوبارہ انتخاب کے بعد ہی اس زوال میں تیزی آئی اور گزشتہ سال بھارتی حکومت نے امتیازی شہریت قانون کے مخالف مظاہرین پر اپنا کریک ڈاؤن تیز کیا اور ایسے درجنوں صحافیوں کو گرفتار کیا جنہوں نے سرکاری وبائی ردعمل پر تنقید کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 'عدلیہ کی آزادی بھی دباؤ میں آگئی ہے، ایک معاملے میں نئی دہلی میں فسادات کے دوران کوئی کارروائی نہ کرنے پر پولیس کی سرزنش کرنے والے جج کو فوری طور پر تبدیل کردیا گیا تھا، جن فسادات میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے'۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ دسمبر 2020 میں بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش نے ایک ایسے قانون کی منظوری دی، جس کے تحت بین المذاہب شادی کے ذریعے جبری مذہبی تبدیلی پر پابندی عائد کی گئی ہے جس کے ناقدین کو خوف ہے کہ یہ بین المذاہب شادی کو مؤثر طور پر روکے گا۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہندو خواتین کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے کے الزام میں بھارتی حکام متعدد مسلمان مردوں کو پہلے ہی گرفتار کر چکی ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت، امریکا کی سیٹلائٹ ڈیٹا پر عسکری معاہدے کی تیاری

سیکریٹری ٹونی بلنکن نے کہا کہ سابق امریکی صدر کے برعکس جو بائیڈن انتظامیہ پوری دنیا میں جمہوریت کی حوصلہ افزائی کے لیے تیار ہے تاہم ایسا کرنے کے لیے امریکا کی فوجی قوت کو استعمال نہیں کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم دوسروں کو اہم اصلاحات کرنے، خراب قوانین کو ختم کرنے، بدعنوانی کے خلاف جنگ اور ناجائز عمل کو روکنے کی ترغیب دیں گے، ہم جمہوری طرز عمل کو فروغ دیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'لیکن ہم فوجی مداخلت کے ذریعے یا طاقت کے ذریعے آمرانہ حکومتوں کو ختم کرنے کی کوششوں کو فروغ نہیں دیں گے، ماضی میں ہم نے اچھی نیت سے یہ حربے آزمائے ہیں تاہم انہوں نے یہ کام نہیں کیے'۔

انہوں نے کہا کہ فوجی مداخلت نے 'جمہوریت کے فروغ کو ایک برا نام دیا' اور امریکی عوام کا اعتماد کھو گیا، ہم اب مختلف طریقے سے کام کریں گے'۔

تبصرے (0) بند ہیں