حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کے تحت اصلاحات کے لیے 84 سرکاری کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کرلیا

اپ ڈیٹ 05 مارچ 2021
2018-19 میں ان تمام 84 سرکاری اداروں (ایس او ای) کا مجموعی ریونیو تقریباً 40 کھرب روپے رہا، وزارت خزانہ - فائل فوٹو:رائٹرز
2018-19 میں ان تمام 84 سرکاری اداروں (ایس او ای) کا مجموعی ریونیو تقریباً 40 کھرب روپے رہا، وزارت خزانہ - فائل فوٹو:رائٹرز

اسلام آباد: حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے اسٹرکچرل بینچ مارک کو پورا کرنے کے لیے سرکاری شعبے میں حتمی نجکاری، لیکوئڈٹی یا برقرار رکھنے کے لیے سرکاری شعبے کی مجموعی 212 کمپنیوں میں سے 84 کو حتمی شکل دے دی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 19-2018 میں ان تمام 84 سرکاری اداروں (ایس او ای) کا مجموعی ریونیو تقریباً 40 کھرب روپے رہا جبکہ ان کے اثاثوں کی کتابی مالیت 190 کھرب روپے ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق 19-2018 میں حاصل ہونے والی آمدنی برائے نام جی ڈی پی کے تقریباً 10 فیصد تھی جس سے 4 لاکھ 50 ہزار افراد (کل ورک افرادی قوت کا 0.8 فیصد) کو روزگار حاصل ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا اسٹیل ملز کے 8 ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کا منصوبہ

جاری کردہ ایک رپورٹ میں وزارت خزانہ نے کہا کہ مجموعی طور پر 25 ایس او ایز، جنہوں نے مل کر 19-2018 میں 107 ارب روپے کا مجموعی منافع حاصل کیا، کو حکومت حاصل کرے گی۔

اس کے علاوہ 14 کمپنیوں کو سرکاری شعبے میں برقرار رکھا گیا ہے اور ان کی تنظیم نو کی جائے گی جبکہ 10 دیگر کمپنیاں پہلے ہی نجکاری کے پروگرام کے تحت تھیں اور 2023 سے 2024 کے درمیان اگلے مرحلے میں مزید 24 کمپنیوں کی نجکاری کی جائے گی۔

یہاں تقریباً 10 دیگر کمپنیاں ہیں جن کی نجکاری کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جبکہ ایک ادارہ، صنعتی ترقیاتی بینک لمیٹڈ، فی الحال لیکوئڈیشن میں ہے۔

وزارت نے کہا کہ چار کمپنیاں جن کا مجموعی منافع 51 ارب 40 کروڑ روپے ہے، معاشی طور پر قابل عمل ہیں اور ان کو برقرار رکھا جائے گا۔

ان میں گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ (34 ارب روپے کا منافع)، پاک عرب ریفائنری لمیٹڈ (12 ارب 30 کروڑ روپے)، پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی (4 ارب 70 کروڑ روپے) اور پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (14 کروڑ 60 لاکھ روپے) شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے جی آئی ڈی سی ادائیگی میں نرمی سے انکار کردیا

وزارت نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ توسیعی فنڈ کی سہولت کے ایک حصے کے طور پر حکومت کی طرف سے ملکیت کے ایک مستقل مالکانہ استدلال کے ذریعے حکومت نے ان کی مستقل ملکیت اور کنٹرول کے لیے ایس او ای کے ایک جامع جائزہ لینے کی طویل المیعاد ضرورت کو دور کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'موجودہ وقت میں فنانس ڈویژن آئی ایم ایف اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ ایس او ای بل اور ایس او ای ملکیت اور انتظامی پالیسی کا مسودہ تیار کیا جاسکے تاکہ موجودہ ایس او ای گورننس اسٹرکچر میں موجود خامیوں کو پُر کیا جاسکے اور حکومت کو ایس او ای کی باخبر کارکردگی کی تشخیص اور نگرانی میں مدد ملے'۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضروری عوامی اشیا اور خدمات کی فراہمی میں ان کے اہم کردار کے باوجود متعدد ایس او ایز کی مالی کارکردگی عدم اطمینان بخش ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کی معاشی پالیسی میں ’اچانک یوٹرنز‘ سے صنعتیں مایوس

بتایا گیا کہ 19-2018 میں ان 84 کمرشل ایس او ایز نے مجموعی طور پر 143 ارب روپے کا خسارہ ریکارڈ کیا جو 18-2017 میں 287 ارب روپے تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ 6 سالوں میں تجارتی ایس او ایز میں سے ایک تہائی کو وقفے وقفے سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں