مہنگی درآمدات اور ٹیکسز کے دوران جدوجہد کرتی شیرشاہ کباڑی مارکیٹ

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2021
ایشیا کی سب سے بڑی اسکریپ یارڈ کہلائی جانے والی شیرشاہ کباڑی مارکیٹ کے مختلف مناظر—تصویر: فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار
ایشیا کی سب سے بڑی اسکریپ یارڈ کہلائی جانے والی شیرشاہ کباڑی مارکیٹ کے مختلف مناظر—تصویر: فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار

کراچی: ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں زائد ڈیوٹیز، ٹیکسز اور کمزور ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے پرزوں، انجنز اور ایساسریز کی قیمتیں بڑھنے سے شیرشاہ کی استعمال شدہ آٹو پارٹس مارکیٹ اپنی گہما گہمی کھو بیٹھی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایشیا کی سب سے بڑی اسکریپ یارڈ کہلائی جانے والی شیرشاہ کباڑی مارکیٹ کو شہر میں گزشتہ چند برسوں میں بننے والی دیگر آٹو پارٹس مارکیٹوں کی وجہ سے بھی سخت مقابلے کا سامنا ہے۔

ڈان نے شیرشاہ کے تاجروں اور آٹو پارٹس کے درآمد کنندگان کا انٹرویو کیا جس میں وہ فخر سے یہ دعویٰ کرتے نظر آئے کہ ’شہر کی دیگر مارکیٹوں، جہاں اسمگل شدہ سامان فروخت ہوتا ہے، کے مقابلے میں دہائیوں پرانی اس مارکیٹ میں تمام پارٹس اور انجنز ڈیوٹی اور ٹیکس ادا شدہ ہیں‘۔

لیاری کے سنگم پر واقع کباڑی مارکیٹ تک پہنچنا ایک مشکل کام ہے اور شیرشاہ پل کی خستہ حال سڑک پر ہچکولے کھاتا سفر آپ کا منتظر ہوگا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں اراضی کی بلند قیمتیں، صنعتکاروں کا پنجاب، خیبرپختونخوا کی طرف رجحان بڑھنے لگا

شیرشاہ مارکیٹ میں کھلونوں، الیکٹرانک آئٹمز، جم مشینز سمیت آٹو پارٹس کی 4 ہزار دکانوں کے علاوہ علاقے میں بڑی تعداد میں گودام اور ملز بھی واقع ہیں جہاں درآمد کنندگان بندرگاہ سے اپنا کنسائنمنٹ حاصل کرنے کے بعد وہاں کھڑا کرتے ہیں۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے تاجروں نے کاروبار کے فروغ پانے کے لحاظ سے پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور حکمران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جمہوری ادوار کے مقابلے میں مشرف کے دور کو بہتر قرار دیا۔

ایک آٹو پارٹس ڈیلر محمد ایوب کا کہنا تھا کہ ’مشرف کے دور میں تاجر مصروف رہتے تھے (تاہم) اب میں صبح سے بیٹھا خریداروں کا منتظر ہوں، گزشتہ 2 برسوں میں ہماری فروخت کم از کم 50 فیصد نیچے آگئی ہے‘۔

وہ کہتے ہیں کہ قوت خرید کم ہونے کے ساتھ ساتھ درآمد شدہ استعمال پارٹس اور انجنرز پر بلند ڈیوٹیز اور ٹیکسز نے خریداروں کو مارکیٹ سے دور کردیا ہے۔

انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ڈائی ہاٹسو میرا 11-2010 ماڈل کا انجن 14 ہزار روپے کے مقابلے میں اب 22 ہزار روپے کا ہے جبکہ ٹویوٹا وٹز کا انجن جو ڈھائی سال قبل 22 ہزار روپے کا تھا وہ اب 40 سے 45 ہزار روپے کا ہوگیا ہے، اسی طرح ٹویوٹا ایکس ایل آئی 2007 کے انجنز 26 سے 30 ہزار روپے کے مقابلے 60 سے 70 ہزار روپے کے ہوگئے ہیں‘۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ڈیوٹی ادا شدہ پارٹس اور انجنز کی قیمتیں اسمگل شدہ کے مقابلے 20 فیصد زیادہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈائی ہاٹسو میرا اور ٹویوٹا وٹز کا کمپلیٹ سسپینشن دو سال قبل کے 10 سے 15 ہزار روپے کے مقابلے 26 سے 30 ہزار روپے میں دستیاب ہے۔

ایک اور درآمد کنندہ اور تاجر محمد ابراہیم بھی کچھ اسی بات کو بیان کرتے نظر آئے اور ان کے بقول ’مارکیٹ کے تاجروں نے مشرف کے دور میں پیسہ بنایا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ پارٹس پر زیادہ ٹیکس اور ڈیوٹیز نے کاروبار کو کم کرکے صرف 25 فیصد تک کردیا ہے اور درآمد کنندگان کو کاروں کے فور سلینڈر انجن پر 40 سے 45 ہزار روپے کسٹمز ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں جبکہ ڈھائی سال قبل تک یہ 15 ہزار روپے تھی اسی طرح سکس سلینڈر انجن پر 30 سے 35 ہزار روپے کے مقابلے ایک لاکھ 15 ہزار روپے وصول کیے جارہے ہیں۔

مہنگا ڈالر

ان کا کہنا تھا کہ اب ایک 40 فٹ کنٹینر کی مجموعی لاگت 40 لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ غیر رسمی چینلز (انفارمل چینلز) سے آنے والے کنٹینر کی مالیت 10 لاکھ روپے ہے۔

محمد ابراہیم نے دعویٰ کیا کہ ’شیرشاہ مارکیٹ اسمگل پارٹس اور انجنوں سے پاک ہے‘ مزید یہ کہ یوسف گوٹھ، مواچھ گوٹھ اور سہراب گوٹھ کی آٹو پارٹس مارکیٹ میں اسمگل سامان فروخت ہوتا ہے۔

ادھر ڈان سے گفتگو میں صدر انجمن ویلفیئر شیرشاہ کباڑی مارکیٹ ملک زاہد دہلوی کا کہنا تھا کہ درآمدات کو کم کرنے کے مقصد کے طور پر گزشتہ 2 برسوں میں ڈیوٹیز اور ٹیکسز میں تقریباً برابر کے اضافے کے باعث پارٹس اور انجنز 50 فیصد تک مہنگے ہوگئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: گیس کے کم پریشر سے کراچی کی صنعتیں متاثر

کار مالکان جو پہلے ہی بڑھتی ہوئی خوراک کی افراط زر اور یوٹیلٹی بلز سے مقابلے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں وہ پارٹس اور انجنز کی تبدیلی کو نظرانداز کرتے ہیں اور وہ مالی وجوہات کی وجہ سے مکینک اور سسپینشن بنانے والوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ پہلے پارٹس اور انجنز کی مرمت کریں۔

ملک زاہد دہلوی کہتے ہیں کہ ’مہنگی ایساسریز کی وجہ سے گزشتہ 2 برسوں میں ہماری فروخت 40 سے 45 فیصد تک نیچے آگئی ہیں‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ کم فروخت کی وجہ سے نقد کے مسائل کا سامنا کرنے کے بعد گزشتہ 3 ماہ میں شیرشاہ میں 4 سے 5 دکانداروں نے اپنی دکانیں بند کردیں۔

زاہد دہلوی کا کہنا تھا کہ 2004 سے 2008 ماڈل کے لیے ٹویوٹا ایکس ایل آئی اسمبلی کی قیمت 60 ہزار روپے ہے جو 2 سال قبل تک 25 سے 30 ہزار روپے تھی، اسی طرح ڈائی ہاٹسو میرا 2004 کا انجن 30 ہزار روپے میں دستیاب ہے جو پہلے 10 سے 12 ہزار روپے کا تھا جبکہ میرا کا نیا انجن 40 سے 50 ہزار روپے کا ہے جو پہلے 20 سے 25 ہزار روپے کا تھا، اس کے علاوہ ٹویوٹا وٹز کی انجن اسمبلی 28 ہزار روپے کے مقابلے اب 50 سے 55 ہزار روپے کی ہے۔

ہچکولے کھاتا سفر

ان کا کہنا تھا کہ ’سڑکوں کی خراب صورتحال اور پارکنگ کی جگہ کی کمی بھی خریداروں کو آسانی سے شیرشاہ پہنچنے نہیں دیتی تاہم ان کے بقول شیرشاہ آٹو پارٹس مارکیٹ خریداروں کو کم از کم تسلی فراہم کرتی ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ زیادہ قیمتوں سے قطع نظر انہیں اصلی پارٹس مل جائیں گے۔

اس علاقے کی مختلف ملوں کے دورے کے دوران کرنل گودام پر موجود محمد برہان نے ڈان کو بتایا کہ گزشتہ دو برسوں میں ڈالر اور روپے کی برابری اور بلند ڈیوٹیز کی وجہ سے استعمال شدہ آٹو پارٹس لانے کے لیے استعمال ہونے والے 40 فٹ کنٹینرز کی قیمت 33 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ استعمال شدہ پارٹس کی درآمد کو صرف 33 فیصد تک محدود کردیا گیا ہے جبکہ کئی درآمد کنندگان اپنے دفاتر اور گودام کے کرائے دینے سے قاصر ہیں۔

محمد برہان کہتے ہیں کہ حکومت کو مشینریز، آٹو پارٹس اور ایساسریز جو مقامی صنعت اور گاڑی مالکان کو مدد بھی فراہم کرتی ہیں، کی درآمد کو روکنے کے بجائے کھانے کی اشیا کی درآمد کو روکنا چاہیے۔

اسی حوالے سے غنی چورنگی کے قریب غنی مل پر ایک گودام کے مالک فضل سبحان کا کہنا تھا کہ برطانیہ، دبئی اور ملائیشیا وغیرہ سے آمد کے مقابلے میں استعمال شدہ آٹو پارٹس اور انجنز کی درآمدات میں جاپان کا سب سے بڑا حصہ ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’گزشتہ ڈھائی سالوں میں درآمد کی لاگت 60 فیصد تک بڑھ چکی ہے جبکہ شیرشاہ مارکیٹ کے گوداموں میں کوئی اسمگل پارٹس اور انجنز نہیں ہیں‘۔

مزید پڑھیں: رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں نئی گاڑیوں کی درآمدات میں 196 فیصد اضافہ

ان کا کہنا تھا کہ زائد ڈیوٹیز نے انجنز اور پارٹس کی درآمدات کے رجحان کو کم کیا ہے، مزید یہ کہ یہاں 22 ٹنز کے استعمال شدہ آٹو پارٹس پر 18 لاکھ 70 ہزار روپے ڈیوٹیز اور ٹیکسز ہیں۔

فضل سبحان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو برسوں میں ٹرک انجنز اور پارٹس کی درآمد میں واضح کمی کا سامنا ہے جبکہ کار پارٹس اور انجنز کا کاروبار استعمال شدہ درآمدی کاروں کی آمد میں واضح کمی کے باوجود معمول کے مطابق چل رہا ہے۔

علاوہ ازیں غنی مل پر ایک اور درآمد کنندہ جہانزیب کا کہنا تھا کہ استعمال شدہ پارٹس اور انجنز کی درآمد کے لیے ایک کنٹینر پر ڈیوٹیز، ٹیکسز، ایکسچینج ریٹ اور دیگر چیزوں کے مجموعی اخراجات کا خرچ 50 سے 60 فیصد تک بڑھ گیا ہے، مزید یہ کہ ’ہماری درآمدات کے ساتھ ساتھ مقامی کاروبار 40 فیصد تک کم ہوگیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹویوٹا وٹز 2005 کا انجن 40 ہزار کے مقابلے اب 75ہزار کا ہے جبکہ ٹویوٹا کورولا ایل ایل آئی 1300 سے 1500 سی سی کے انجن کی لاگت 80 ہزار کے مقابلے ایک لاکھ روپے ہے۔


یہ خبر 7 مارچ 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں