اگر آپ کو انگلش سراغرساں سرلاک ہومز کی کہانیوں یا فلموں وغیرہ میں دلچسپی ہے تو معلوم ہوگا کہ وہ ہر قسم کی تفصیلات کس طرح ایک 'میموری پیلس' میں محفوظ کرتا ہے۔

یہ ایک ایسی تیکنیک ہے جو قدیم یونان میں سامنے آئی تھی اور اب محققین نے دریافت کیا ہے کہ یہ طریقہ کار واقعی طویل المعیاد یادوں کو تشکیل دینے میں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔

میتھوڈ آف لوسائی نامی اس تیکنیک میں ذہنی طور پر کسی جانے پہچانے مقام پر گھومتے پھرتے ہیں۔

جیسے گھر یا کوئی پسندیدہ پارک یا دیگر میں ذہنی طور پر گھومتے ہوئے جو چیزیں یاد رکھنا چاہتے ہیں وہ وہاں مختلف حصوں میں رکھ دی جاتی ہیں اور بعد ازاں اپنے قدموں پر دوبارہ چلتے ہوئے ان تفصیلات کو 'اٹھا' لیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر آپ مینار پاکستان سے واقف ہیں تو تصور کریں کہ وہاں آپ چہل قدمی کررہے ہیں اور ایک لفظ جیسے کتاب کو جھیل میں گرا دیا، پھر ایک اور لفظ کسی اور جگہ۔

تو اس طرح جو الفاظ یاد رکھنا چاہتے ہیں وہ دوبارہ اسی طرح ذہن میں نقشہ اجاگر کرکے اپنے قدموں پر دوبارہ چلتے ہوئے حاصل کرلیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ اس طریقہ کار سے لوگ الفاظ کی فہرستیں، ہندسوں کی سیریز اور دیگر کو طویل عرصے یاد رکھ سکتے ہیں۔

ویانا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل محقق ازابیلا وانگر نے بتایا کہ ہم یہ دیکھ کر مسحور ہوگئے کہ ورلڈ میموری چیمپئن شپ میں کس طرح کی حیران کن یادداشت کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

اس طریقہ کار کی جانچ پڑتال کے لیے 17 میموری ایتھلیٹس یا چیمپئنز کی خدمات حاصل کی گئیں جو میموری مقابلوں میں دنیا کے سرفہرست 50 افراد میں شامل تھے۔

اسی طرح 16 ایسے افراد کو بی تحقیق کا حصہ بنایا گیا جو عمر اور ذہانت کے حوالے سے ان میموری ایتھلیٹس کا مقابلہ کرسکتے تھے۔

ان رضاکاروں کے دماغوں کے ایف ایم آر آئی اسکینز اس وقت کیے گئے جب وہ ایک فہرست سے مختلف الفاظ پڑھ رہے تھے۔

اس کے بعد ان رضاکاروں سے کہا گیا کہ وہ ان الفاظ کو اسی ترتیب سے یاد کریں جس طرح فہرست میں دی گئی تھی۔

تحقیق کے دوسرے حصے میں 50 ایسے افراد کو شامل کیا گیا جن کا یادداشت کی تربیت کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور ان میں سے 17 کو 6 ہفتوں تک میتھوڈ آف لوسائی کو استعمال کرنے کی تربیت فراہم کی گئی۔

ان میں سے 16 افراد کو ایک اور مختلف طریقہ کار کی تربیت فراہم کی گئی جبکہ باقی افراد کو کسی قسم کی تربیت نہیں دی گئی۔

ان افراد کے دماغوں کو ایف ایم آر آئی اسکینز تربیت سے پہلے اور بعد میں کیے گئے اور وہی ٹاسکس کرائے گئے جو پہلے حصے میں دوسرے گروپ سے گرائے گئے تھے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو میتھوڈ آف لوسائی کی تربیت دی گئی تی انہوں نے طویل المعیاد یادوں کے حوالے سے دیگر کے مقابلے میں بہترین کارکردگی کا مظاہر کیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ اس طریقہ کار کی تربیت سے ان افراد کی پائیدار یادوں میں نمایاں اضافہ ہوا مگر مختصر المدت یادوں میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔

ٹاسک کے دوران میتھوڈ آف لوسائی کی تربیت حاصل کرنے والے افراد نے 20 منٹ بعد فہرست کے 62 الفاظ کو یاد رکھا، دوسرے طریقہ کار کی تربیت حاصل کرنے والوں میں یہ تعداد 42 جبکہ تربیت حاصل نہ کرنے والوں نے 36 الفاظ یاد رکھے۔

اسی طرح 24 گھنٹے بعد میتھوڈ آف لوسائی والے گروپ کو یاد الفاظ کی تعداد 50 تھی جبکہ دیگر گروپس میں بالترتیب 30 اور 27 رہی۔

محققین نے دریافت کیا کہ میموری ایتھلیٹس اور لوسائی کی تربیت حاصل کرنے والے افراد کی الفاظ کی فہرستوں اور ترتیب کو یاد رکھنے کی دماغی سرگرمی ملتی جلتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ یہ طریقہ کار دماغ کو زیادہ افادیت سے کام کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے جس سے یادداشت بہتر ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طریقہ کار کو سیکھنا ہر ایک کے لیے ممکن ہے، بس کچھ وقت اور مشق کو معمول بنانے کی ضرورت ہوگی، چاہے ہر ایک کے لیے یہ موزوں نہ ہو مگر اس سے یادداشت بہتر ہوسکتی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل سائنس ایڈوانسز میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں