حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی براہ راست کوریج کی مخالفت کردی

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2021
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ جو نقطہ مرکزی کیس میں نہ اٹھایا گیا
—فائل/فوٹو: سپریم کورٹ
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ جو نقطہ مرکزی کیس میں نہ اٹھایا گیا —فائل/فوٹو: سپریم کورٹ

وفاقی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسی نظر ثانی کیس عدالتی کارروائی کی براہ راست کوریج سے متعلق درخواست پر حکومت نے دو ٹوک الفاظ میں مخالفت کر دی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے کی۔

اس 10 رکنی بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔

مزیدپڑھیں: نظرثانی کیس: اہلیہ جسٹس عیسیٰ کی چیف جسٹس سے متعلق بات پر عدالت برہم، حد میں رہنے کی تنبیہ

دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ جو نقطہ مرکزی کیس میں نہ اٹھایا گیا ہو وہ نظرثانی کیس میں نہیں اٹھایا جا سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست قابل سماعت نہیں ہے جبکہ کسی صحافی یا صحافتی تنظیم کی طرف سے براہ راست کوریج کی کوئی درخواست نہیں دی گئی اور براہ راست کوریج کی اجازت دینا پالیسی کا معاملہ ہے.

دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، ہم ویڈیو لنک کی ٹیکنالوجی استعمال کرکے بلوچستان اور کے پی کے وکلا کو اسلام آباد میں بیٹھ کر سنتے ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ براہ راست کوریج دینے یا نہ دینے کا خالصتاً اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے۔ ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت سپریم کورٹ یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا، آپ کا کام صرف معاونت کرنا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیاوفاقی حکومت کا بھی یہی مؤقف ہے کہ یہ جوڈیشل اختیار نہیں بلکہ سپریم کورٹ کا انتظامی اختیار ہے۔

مزیدپڑھیں:نظرثانی کیس: چیف جسٹس کے عہدے کو مفادات کے ٹکراؤ کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہیے، جسٹس عیسیٰ

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر وفاقی حکومت کو براہ راست کوریج کا اختیار نہیں تو کسی سائل کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بتائے کہ سپریم کورٹ کو کیا کرنا ہے۔

انہوں نے ریماکس دیے کہ عدالت میں گنجائش کم ہونے کی صورت میں کیا سپریم کورٹ دیگر کمرہ عدالتوں میں براہ راست کوریج کا بندوبست کرسکتی ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس وقت پوری دنیا ایک عالمی گاؤں کی حیثیت اختیار کرچکی ہے، گوادر میں بیٹھے شخص کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ کمرہ عدالت کی کوریج سن اور دیکھ سکے، پاکستان کے دور دراز علاقے میں رہنا والا پاکستانی مالی مشکلات کے سبب سپریم کورٹ نہیں آسکتا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اپنا منہ زمین میں دبایا ہوا ہے کہ جو چل رہا ہے ایسے ہی چلے گا، نہ آپ کے پاس ایسا راز ہے نہ ہمارے پاس کوئی ایسا راز ہے جس کی ممانعت ہو، اگر کسی جج کی طرف سے بدتمیزی کی گئی ہو تو وہ بھی پبلک ہونی چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی وکیل یا سرکاری وکیل کی طرف سے بد تمیزی ہو تو وہ بھی پبلک ہونی چاہیے، عوام کو عدالتی فیصلوں پر رائے دینے کا حق ہونا چاہیے، ہم کیوں چھپ رہے ہیں کیا وجوہات ہیں، سب کچھ پبلک ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ نظرثانی کیس: بینچ کی تشکیل کے معاملے پر فیصلہ محفوظ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے روسٹرم پر آکر کہا کہ حکومت میڈیا کو دبا رہی ہے، پہلے حکومت نے میڈیا کو تباہ کردیا اب یوٹیوب کے پیچھے پڑجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے کھلے عام بدنام کیا جا رہا ہے جبکہ کنٹرول میڈیا کے ذریعے میرے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، اگر کوریج برائے راست ہو تو سب دیکھیں گے کہ کیا حق ہے اور کیا سچ ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ یہ حق اور سچ سے ڈرتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میں آپ سے پرائیوٹ نہیں مل سکتا ورنہ پرائیوٹ مل کر میں آپ کو بتاتا آپ کو بھرپور کوریج مل رہی ہے۔

بعدازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت 17 مارچ تک ملتوی کردی۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 7 ججز کے اپنے اکثریتی مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے انہیں 7 اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ان کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس پر نظرثانی کیلئے 10 رکنی بینچ تشکیل

عدالتی بینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن انہوں نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔

اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ’غلطی‘ اور ’ایرر‘ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔

بعد ازاں اس کیس کا 23 اکتوبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جو 174 صفحات پر مشتمل تھا، جس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی غور شدہ رائے نہیں بنا پائے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’مختلف نقائص‘ موجود تھے۔

تفصیلی فیصلے کے بعد اکتوبر میں سپریم کورٹ کو 4 ترمیم شدہ درخواستیں موصول ہوئی تھی جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق اکثریتی فیصلے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔

اس معاملے پر عدالت کی جانب سے نظرثانی کے لیے پہلے ایک 6 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا تاہم درخواست گزاروں نے 6 رکنی نظرثانی بینچ کی تشکیل کو چیلنج کردیا تھا اور یہ مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف کیس میں اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے تینوں ججز کو نظرثانی بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

جس کے بعد بینچ تشکیل کے معاملے پر سماعت ہوئی تھیں اور عدالت نے 10 دسمبر 2020 کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا کہ آیا یہی بینچ یا ایک لارجر بینچ جسٹس عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تعین کرے گا۔

بالآخر 22 فروری 2021 کو جاری کردہ 28 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مذکورہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا کہ وہ بینچ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ کریں اور وہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے سکتے ہیں۔

بعد ازاں 23 فروری 2021 کو چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک 10 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں ان تینوں ججز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا جنہوں نے مرکزی فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں