جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موبائل ہیک کر لیا گیا

اپ ڈیٹ 02 فروری 2021
سپریم کورٹ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے موبائل نمبر کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے—فائل/فوٹو: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے موبائل نمبر کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے—فائل/فوٹو: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موبائل فون ہیک کر لیا گیا۔

سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 'جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موبائل فون ہیک کر لیا گیا ہے اور شبہ ہے کہ ان کے موبائل نمبر سے کسی کو بھی گمراہ کن پیغام رسانی ہوسکتی ہے'۔

بیان میں کہا گیا کہ ہیکرز 'موبائل نمبر کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں'۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

سپریم کورٹ کے اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ 'جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے موبائل فون نمبر سے کسی بھی قسم کی پیغام رسانی جعلی اور جھوٹ تصور کی جائے کیونکہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نہیں کی'۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا جس کو عدالت عظمیٰ نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی تھی، فل کورٹ کے دیگر اراکین میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد شامل تھے۔

سپریم کورٹ میں ریفرنس پر سماعت مئی 2019 سے جون 2020 تک تقریباً 13 ماہ تک ہوئی، جہاں 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں، اس دوران ایک اٹارنی جنرل نے ججز سے متعلق بیان پر نہ صرف استعفیٰ دیا بلکہ فروغ نسیم بھی کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے کے لیے وزیر قانون کے عہدے سے مستعفی ہوئے، یہی نہیں بلکہ یہ کیس تاریخی لحاظ سے اس لیے بھی اہم رہا کیونکہ اس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس عیسیٰ عدالت میں خود پیش ہوئے۔

سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریری فیصلہ جاری کیا تھا جس میں تین ججوں نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اضافی نوٹ لکھا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عدالت نے درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست کو منظور کرلیا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جاری کیا گیا شوکاز نوٹس بھی منسوخ کردیا، مزید یہ کہ عدالت کی جانب سے یہ حکم دیا گیا کہ فیڈرل بورڈ آف (ایف بی آر) 7 روز میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کو نوٹس جاری کرے، نوٹس ہر پراپرٹی کا الگ الگ بھجوایا جائے، ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ نوٹس جسٹس عیسیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کے پتے پر بھجوایا جائے اور ایف بی آر معاملے کو التوا میں نہ ڈالے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ قانون کی کارروائی بنتی ہو تو سپریم جوڈیشل کونسل مجاز ہوگی، چیئرمیں ایف بی آر اپنے دستخط سے رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کو جمع کرائیں۔

یاد رہے کہ مئی 2019 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس میں الزام لگایا تھا کہ انہوں نے 2011 سے 2015 کے دوران لندن میں لیز پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیدادیں حاصل کیں تھیں لیکن انہیں ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا تھا۔

بعدازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزامات کا مقابلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ فلیٹس کے بینیفشل اونر نہیں ہیں۔

اس درخواست کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں استدعا کی تھی کہ کچھ طاقتیں انہیں کسی نہ کسی طریقے سے آئینی عہدے سے ہٹانا چاہتی ہیں جبکہ صدر مملکت عارف علوی نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے قبل اپنی آزادانہ رائے قائم نہیں کی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وزیراعظم، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن 116 (بی) کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا اور غلطی سے اسے ان کی اہلیہ اور بچوں پر لاگو کردیا تھا جبکہ اس قانون کا اطلاق صرف زیر کفالت اہلیہ اور ان بچوں پر اطلاق ہوتا ہے جو چھوٹے ہوں اور والد پر انحصار کرتے ہوں۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سرکاری ایجنسیوں بشمول ایف آئی اے نے خفیہ طور پر درخواست گزار اور ان کے خاندان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 4 اور 14 کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے معلومات حاصل کیں اور انہیں تحقیقات سے متعلق اعتماد میں نہیں لیا گیا نہ ہی انہیں جواب دینا کا کوئی موقع فراہم کیا گیا۔

جسٹس قاضیٰ عیسیٰ نے عدالت سے درِخواست کی تھی کہ حکومت کی جانب سے ان کے خاندان کی جائیدادوں کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو غیرقانونی قرار دیا جائے، ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ میرے اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقات غیر قانونی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں