بھارت: نئے قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج میں ہزاروں خواتین بھی شامل

اپ ڈیٹ 09 مارچ 2021
ہزاروں خواتین نے احتجاج کیا—فوٹو: رائٹرز
ہزاروں خواتین نے احتجاج کیا—فوٹو: رائٹرز

بھارت میں نئے زرعی قوانین کے خلاف گزشتہ کئی ماہ سے جاری کسانوں کے احتجاج میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین بھی شامل ہوگئیں۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق دہلی کے مضافات میں عالمی یوم خواتین کے موقع پر ہزاروں خواتین بھی جمع ہوئیں اور مطالبہ کیا کہ نئےزرعی قوانین کو ختم کردیا جائے۔

مزید پڑھیں: بھارت: کسانوں کا احتجاج روکنے کی کوشش، نئی دہلی میں رکاوٹوں میں اضافہ

خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر سے بھارت کے دارالحکومت کے مضافات میں 3 مختلف مقامات پر کسان اور ان کے خاندان احتجاج کیمپ لگا کر بیٹے ہوئے ہیں اور حکومت کی زرعی اصلاحات کی مخالفت کر رہے ہیں۔

سرسوں کی فصل سے مماثل یلو رنگ کی چادریں اوڑھی خواتین احتجاجی کیمپ میں توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی اور وہ نعرے لگا رہی تھیں، انہوں نے مارچ بھی کیا اور قوانین کے خلاف تقاریر بھی کیں۔

کسان خاندان سے تعلق رکھنے والی 37 سالہ وینا کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک اہم دن ہے کیونکہ یہ دن خواتین کی طاقت کا مظہر ہے'۔

بھارتی پنجاب کے علاقے ٹکری سے احتجاج کے لیے آئی ہوئی وینا نے نے کہا کہ 'میرا ماننا ہے کہ اگر ہم متحد ہوئے تو پھر ہم اپنے مقاصد بہت جلد حاصل کر سکتے ہیں'۔

پولیس اور احتجاج کے منتظمین کا کہنا تھا کہ دارالحکومت دہلی اور ریاست ہریانہ کی سرحد کے قریب ہونے والے اس مظاہرے میں 20 ہزار سے زائد خواتین شریک ہوئیں۔

سماجی کارکن کویتھا کوروگانتی نے کہا کہ 'یہ وہ دن ہے جس کا انتظام اور کنٹرول خواتین کریں گی، مقررین بھی خواتین ہوں گی اور خواتین کے مسائل اور کسان خواتین سے متعلق قوانین زیر بحث آئیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ خواتین کے کردار کو نمایاں کرنے کا ایک اور موقع ہے جو وہ بھارت کی زراعت اور اس تحریک دونوں میں ادا کر رہی ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: کسانوں کے احتجاج کی رپورٹنگ پر بھارتی صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات

دوسری جانب بھارتی حکومت کا مؤقف ہے کہ ان اصلاحات سے زراعت میں نجی سرمایہ کاری ہوگی، شعبے میں بہتری کے ساتھ ساتھ زرعی فضلے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

نریندر مودی کی حکومت نے مظاہرین کو پیش کش کی تھی کہ ان قوانین کو ڈیڑھ سال تک ملتوی کردیں گے لیکن کسانوں نے اس پیش کش کو مسترد کرتے ہوئےمطالبہ کیا کہ ان قوانین کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔

بھارت کی 2.9 کھرب ڈالر معیشت میں زراعت کا حصہ تقریباً 15 فیصد ہے اور بڑی تعداد میں عوام کا روزگار بھی منسلک ہے۔

کویتھا کوروگانتی نے کہا کہ نئے قوانین میں خواتین کسانوں کا بھی مردوں کی طرح بڑا نقصان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ مارکیٹوں میں حالات سنگل خاتون کے لیے پہلے ہی بہت مشکل تھے اور اب مزید ابتر ہوجائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں