بھارت: کسانوں کا احتجاج روکنے کی کوشش، نئی دہلی میں رکاوٹوں میں اضافہ

اپ ڈیٹ 03 فروری 2021
رکاوٹوں کی تصاویر کو سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر شیئر کیا گیا — فوٹو: اے ایف پی
رکاوٹوں کی تصاویر کو سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر شیئر کیا گیا — فوٹو: اے ایف پی

بھارتی حکام نے ہزاروں احتجاجی کسانوں کو دارالحکومت میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کے تحت نئی دہلی کے باہر 3 احتجاجی مقامات پر سیکیورٹی میں اضافہ کردیا۔

حکام نے مرکزی احتجاجی مقامات پر خاردار تاریں، اسٹیل کی رکاوٹیں نصب کی ہیں اور پولیس کی نفری میں اضافہ بھی کیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع امریکی خبررساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق مظاہرے کے ایک مقام، غازی پور میں مرکزی شاہراہ پر لوہے کی کیلیں نصب کی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں: بھارت: کسانوں کے احتجاج پر مخصوص ہیش ٹیگ استعمال کرنے والے متعدد ٹوئٹر اکاؤنٹس بند

علاوہ ازیں سمینٹ کو جانے والے سڑک پر رکاوٹیں خاردار تاروں سے لیس ہیں جہاں سرکاری فورسز بھی موجود ہٰیں جس کے باعث علاقہ ایک حفاظتی قلعے کا منظر پیش کررہا ہے۔

رکاوٹوں کی تصاویر کو سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر شیئر کیا گیا اور کئی لوگوں نے ان کا موازنہ بھارتی سرحدی باڑ سے کیا۔

بھارت کی وسطی ریاست اترپردیش سے تعلق رکھنے والے مظاہرین میں شامل کسان دیویندر سنگھ نے کہا کہ سیکیورٹی کے نئے انتظامات انہیں ڈرانے کے لیے کیے گئے لیکن کسان اتنی آسانی سے نہیں بھاگیں گے۔

مہینوں سے جاری کسانوں کے احتجاج نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

ہزاروں کسانوں نے نئی دہلی کے مضافات میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں جو سردی اور بارش کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں کسانوں کے احتجاج میں شدت، ملک بھر میں ریلوے ٹریکس اور ہائی ویز بند

وہ زرعی اصلاحات کے نئے قوانین کے خلاف بڑے پیمانے پر پُرامن احتجاج کررہے ہیں جو ان کے مطابق کسانوں کی آمدن کو تباہ کردیں گے اور انہیں کارپوریٹ لالچ کا شکار بنادیں گے۔

مذکورہ سخت سیکیورٹی اور اضافی حفاظتی اقدامات، گزشتہ ہفتے ہونے والے پُرتشدد مظاہرے کے بعد اٹھائے گئے جب پیدل چلنے والوں، ٹریکٹرز اور گھوڑوں پر سوار کسان رکاوٹیں توڑ کر شہر میں داخل ہوگئے تھے اور ان کی پولیس سے جھڑپ ہوئی تھی۔

انہوں نے 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر نئی دہلی کے 17ویں صدی کے لال قلعہ پر مختصر لیکن ڈرامائی انداز میں چڑھائی کی تھی۔

جھڑپوں میں مظاہرین میں شامل ایک شخص ہلاک جبکہ کئی سیکڑوں پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔

تاہم حکام کی جانب سے یہ نہیں بتایا کہ جھڑپوں میں کتنے کسان زخمی ہوئے تھے۔

صورتحال اب بھی کشیدہ ہے جبکہ حکام نے منگل (2 فروری) کی درمیانی شب کو احتجاجی مقامات پر انٹرنیٹ کی بندش میں توسیع کردی تھی۔

دو روز قبل یکم فروری کو ٹوئٹر نے احتجاجی کسانوں کے ایک گروہ کسان ایکتا مورچہ کا اکاؤنٹ عارضی طور پر معطل کردیا لیکن آن لائن احتجاج کے کچھ گھنٹوں بعد اسے بحال کردیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے ایک اتھارٹی سے جاری کردہ درست قانونی درخواست پر کارروائی کی تھی۔

ٹوئٹر نے مزید کہا تھا کہ اگر کسی مجاز ادارے کی جانب سے کوئی باضابطہ درخواست موصول ہو تو وہ مخصوص مواد تک رسائی کو روک سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: کسانوں کے احتجاج کی رپورٹنگ پر بھارتی صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات

سمیوکتا کسان مورچہ یا یونائیٹڈ فارمز فرنٹ جو احتجاج کی قیادت کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات حکومت، پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے متعدد حملوں کا حصہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ہفتے کے روز (6 فروری کو) 3 گھنٹے کی ملک گیر ہڑتال کریں گے۔

دوسری جانب بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے نئے قوانین کی مذمت کی۔

انہوں نے ٹوئٹ کی کہ پُل بنائیں دیواریں نہیں، حکومت اور کسانوں کے مابین مذاکرات کے متعدد دور اس جمود کو ختم کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

کسانوں کا مؤقف ہے کہ نئے قوانین سے زراعت کی کارٹیلائزیشن اور کمرشلائزیشن ہوگی۔

دوسری جانب مودی حکومت کا کہنا ہے کہ اصلاحات سے کسانوں کو فائدہ ہوگا اور نجی سرمایہ کاری کے ذریعے پیداوار بڑھے گی۔


یہ خبر 3 فروری، 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں