شہرت متکبر بنا دیتی ہے مگر میں نے تکبر سے شکر سیکھا، عاطف اسلم

اپ ڈیٹ 10 مارچ 2021
کم عمری میں شہرت مل گئی تھی، گلوکار—فوٹو: انسٹاگرام
کم عمری میں شہرت مل گئی تھی، گلوکار—فوٹو: انسٹاگرام

شہرت یافتہ گلوکار عاطف اسلم کا کہنا ہے کہ انہوں نے کم عمری میں ہی شہرت دیکھی اور شہرت انسان کو متکبر بنا دیتی ہیں مگر انہوں نے تکبر سے شکر کرنا سیکھا۔

’عادت‘ سے گلوکاری کا آغاز کرنے والے عاطف اسلم نے کینیڈین نژاد عرب اینکر انس بوخش سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے پہلی مرتبہ محض 17 برس کی عمر میں گانا گایا تھا اور انہیں 20 سال کی عمر میں ہی شہرت مل گئی تھی۔

عاطف اسلم کے مطابق شہرت، طاقت، دولت اور دیگر عیاشیاں میسر ہوجانے سے انسان متکبر بن جاتا ہے اور وہ غرور میں آکر دوسروں کو غیر اہم سمجھنے لگتا ہے مگر انہوں نے تکبر اور شہرت سے شکر اور محبت سیکھی۔

ان کے مطابق جو انسان شہرت، طاقت اور دولت آجانے کے بعد غلط کام کرتے ہیں، وہ آئینے میں اپنا سامنا نہیں کر سکتے اور ایسے افراد کو آئینہ ہر بار ٹوکتا ہے کہ انہوں نے کچھ نہ کچھ غلطی کی ہے۔

عاطف اسلم نے بتایا کہ وہ ابتدائی طور پر کرکٹر بننا چاہتے تھے اور وہ اچھے کھلاڑی بھی تھے مگر پھر انہوں نے فیصلہ بدلا اور چند سال تک وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پائے کہ انہیں کیا کرنا ہے؟

’تیرا ہونے لگا ہوں‘ کے گلوکار نے بتایا کہ ایک بار انہوں نے لیجنڈ گلوکار راحت فتح علی خان کو دوسرے گلوکار کے ساتھ گاتے ہوئے سنا تو ان کی سوچ بدلی اور پھر آنے والے سال میں وہ گلوکار بنے۔

عاطف اسلم نے بتایا کہ راحت فتح علی خان کو سننے کے بعد وہ تنہائی میں بیٹھتے تو انہیں آوازیں آنا شروع ہوجاتیں، نماز پڑھتے تو کوئی ان سے بات کرتا اور پھر انہیں احساس ہوا کہ ان کے پاس ’آواز‘ کا تحفہ ہے۔

گلوکار کے مطابق جب وہ 14 برس کے تھے تو انہوں نے گھر میں گنگنانا شروع کیا اور بڑے بھائی کی جانب سے لائے گئے گٹار کو بجانا شروع کیا اور پھر آہستہ آہستہ انہوں نے گیت بنانا اور لکھنا شروع کیے۔

یہ بھی پڑھیں: عاطف اسلم کی آواز میں اذان سوشل میڈیا پر وائرل

عاطف اسلم کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنا پہلا گانا ’عادت‘ اپنے پیسوں سے ہی تیار کروایا تھا اور انہوں نے کالج کے خرچے کے لیے ملنے والے پیسے جمع کرکے گانا ریکارڈ کروایا تھا۔

گلوکار نے بتایا کہ انہوں نے گانے کی آڈیو تیار کروانے کے بعد انٹرنیٹ ویب سائٹس اور چیٹ رومز میں شیئر کی، جو اس وقت سوشل میڈیا کے نہ ہونے کے باوجود وائرل ہوگئی اور لوگ ان کا چہرہ دیکھنے کی خواہش کرنے لگے۔

عاطف اسلم کا کہنا تھا کہ ’عادت‘ کی آڈیو وائرل ہونے کے بعد انہوں نے دوبارہ پیسے جمع کرکے اس کی ویڈیو بھی بنوائی اور ان کے پہلے ہی گانے سے انہیں شہرت ملی۔

عاطف اسلم نے کالج کا زمانہ یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کالج میں بھی پرکشش تھے اور کالج کی تمام لڑکیاں ان کے ساتھ آکر بیٹھتی تھیں اور وہ اپنے بوائے فرینڈز سے متعلق باتیں کرتی تھیں۔

گلوکار کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کے پاس آنے سے لڑکے ان سے خفا ہوتے اور پوچھتے تھے کہ ان میں ایسا کیا ہے کہ سب لڑکیاں ان کے پاس آتی ہیں؟

گلوکار نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کالج کے زمانے میں ان کے پاس نہ تو گاڑی تھی اور نہ ہی اتنے پیسے کہ کسی لڑکی کو کھانے کی دعوت دے سکیں تاہم وہ ان لڑکیوں کی ہر بات آرام سے سنتے اور انہیں مشورے دیتے تھے، جس کی وجہ سے لڑکیاں ان کے پاس آکر بیٹھتی تھیں۔

انہوں نے زندگی کا سب سے تلخ واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ سال قبل جب وہ ترکی میں میوزک کنسرٹ میں گئے اور اسٹیج پر پرفارمنس کرنے سے آدھا گھنٹا قبل ہی ان کی اہلیہ کا فون آیا، جنہوں نے انہیں بتایا کہ ان کے پیٹ میں موجود بچے کا دل نہیں دھڑک رہا۔

گلوکار کے مطابق اہلیہ کی فون کے بعد وہ اسٹیج پر گئے اور ڈھائی گھنٹے تک پرفارمنس کی اور کنسرٹ میں موجود لوگ جھومتے اور شراب نوشی کرتے رہے، مگر وہ یہ سوچتے رہے کہ انسان کتنا بے بس ہے؟

عاطف اسلم نے مزید بتایا کہ جب وہ پہلی بار والد بنے تو انہوں نے بیٹے کو اٹھانے کے بعد سوچا کہ یہ کیسا عمل ہے کہ ایک وجود سے دوسرا وجود بنتا ہے اور یقینا یہ کام صرف ایک ہی قوت کرتی ہے۔

گلوکار کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے بیٹے عبدالاحد کے کان میں ’اذان‘ دینے پر جو خوشی انہیں ملی، وہ اسے آج تک نہیں بھول سکتے۔

انہوں نے بڑے بیٹے عبدالاحد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی طرح ہی ہیں، وہ جب نماز پڑھتے ہیں تو وہ بھی ان کے پاس آکر نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں۔

انہوں نے دوسرے بیٹے سے متعلق کہا کہ وہ ذرا تیز طبیعت کے ہیں اور وہ ہر چیز پڑ لڑ جاتے ہیں۔

طویل انٹرویو میں عاطف اسلم نے کم عمری میں شہرت، دولت اور طاقت ملنے پر خدا کا شکر ادا کیا اور کہا کہ انہیں اس وقت سب سے زیادہ خوشی اور سکون ملتا ہے جب کوئی انہیں پیغام بھیجتا ہے کہ فلاں شخص بیمار ہے مگر وہ ان کے گانے سن کر جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔

ان کے مطابق خدا نے انہیں یہ مقام عطا کیا کہ بیمار لوگ ان کی آواز سن کر جذبات کا کسی نہ کسی طرح اظہار کرتے ہیں اور یہ سب ان کا نہیں کسی اور کا کمال ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں