وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سابق وزیراعظم نواز شریف پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے اپنی پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ اور من پسند افراد کو لاہور میں ہزاروں اربوں کے پلاٹ غیر قانونی طور پر الاٹ کیے۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق عثمان بزدار نے کہا کہ حتیٰ کہ 1980 کی دہائی کے آخر میں صوبائی چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اپنے صوابدیدی کوٹے کی بھی خلاف ورزی کی۔

مزید پڑھیں: غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ کیس: میر شکیل الرحمٰن کے جوڈیشل ریمانڈ میں 22 روز کی توسیع

وزیر اعلیٰ پنجاب نے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل گوہر نفیس کی پیش کردہ ایک رپورٹ پر مذکورہ دعویٰ کیا۔

عثمان بزدار نے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور صحافیوں کے ساتھ ایک پریزنٹیشن بھی شیئر کی جس کا عنوان ’مسلم لیگ (ن) کی سازش کی سیاست: نیپٹوزم اور سیاسی سرپرستی کا معاملہ‘ تھا۔

ایک حاضر سروس اور لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایک ریٹائرڈ عہدیدار نے وزیر اعلیٰ کے بیانات کی تردید کی۔

وزیراعلیٰ نے الزام لگایا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے محکمہ صحت ملیریا کنٹرول پروگرام کے کلرک قمر زمان خان کو ترقی دی اور بالآخر انہیں لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے ڈی جی کے عہدے پر تعینات کیا اور 90-1985 کے درمیانی عرصے میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے ان کے پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ حاصل کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ پلاٹ شہدا، بیوہ، یتیم، علمائے کرام، کھلاڑیوں اور صحافیوں کے اہل خانہ کے لیے تھے۔

عثمان بزدار نے کہا کہ نواز شریف نے بحیثیت وزیر اعلیٰ اپنے 10 فیصد صوابدیدی کوٹے کی بھی خلاف ورزی کی اور ایک ہزار 352 پلاٹوں کو الاٹ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پلاٹ الاٹمنٹ ریفرنس: نواز شریف کو پیش ہونے کیلئے ایک ماہ کی پھر مہلت مل گئی

انہوں نے بتایا کہ سینیٹر صوبیدار مندوخیل، ایم این اے بختر منیر خان اور انوار الحق کو پلاٹ الاٹ کیے گئے اور ایم پی اے راجا اشفاق سرور، خالد جاوید ورک، میاں عبدالخالق، سردار عبدالرشید ڈوگر، عمر حیات چوہدری، نذیر احمد، صاحبزادہ خضر حیات، محمودالحسن، اختر علی اور غلام محمد بھی پلاٹ حاصل کرنے والوں میں تھے۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے کہا کہ پلاٹوں کی ان تمام غیر قانونی الاٹمنٹ دراصل ’چھانگا مانگا سیاست‘ کی عکاسی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف نے 2 ہزار سے زائد پلاٹ الاٹ کیے اور انکوائریز کو برسوں سرد خانے میں رکھا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ سابق صوبائی وزیر راجا اشفاق سرور کو 14 پلاٹ الاٹ کیے گئے۔

ایل ڈے اے

عہدیداروں نے بتایا کہ یہ الاٹمنٹ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے صوبے کے چیف ایگزیکٹو افسر ہونے کے صوابدیدی اختیارات کے تحت مخصوص قیمتوں پر کیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت صرف پنجاب کے وزیراعلیٰ ہی نہیں بلکہ چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے کچھ صوابدیدی اختیارات تھے۔

ایل ڈی اے کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ پلاٹ مفت میں الاٹ نہیں کیے گئے کیونکہ الاٹیز نے فی مرلہ مخصوص قیمت ادا کی ہے جیسا کہ قواعد کے تحت کمیٹیوں نے جانچ کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سرکاری عہدیداروں سمیت 7 افراد کو سرکاری اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ پر 10 سال قید

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو بھی قانون کے تحت ایل ڈی اے کی گورننگ باڈی کا سربراہ / چیئرمین ہونا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ 80 کی دہائی کے آخر میں جوہر ٹاؤن میں اسکولوں اور ہسپتالوں کے لیے مختص مختلف پلاٹوں اور دیگر اسکیموں کو بھی مخصوص قیمت پر الاٹ کیے گئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں