اسرائیل کے انتخابات میں اسلام پسند پارٹی 'کنگ میکر' بن کر سامنے آگئی

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2021
منصور عباس نے کہا کہ کسی بھی اتحاد میں شامل ہوسکتے ہیں — فوٹو: رائٹرز
منصور عباس نے کہا کہ کسی بھی اتحاد میں شامل ہوسکتے ہیں — فوٹو: رائٹرز

اسرائیل کے انتخابات میں اسلام پسند یونائیٹڈ عرب لسٹ (رعام) پارٹی زبردست کامیابی حاصل کرکے پارلیمنٹ میں بطور کنگ میکر داخل ہوگئی ہے۔

خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق رعام پارٹی کے قائد منصور عباس نے ماضی میں دیگر عرب جماعتوں کے مؤقف کے برعکس اسرائیلی حکومت میں شمولیت کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی وزیراعظم انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں پھر ناکام

منصور عباس نے اسرائیلی ریڈیو کو انٹرویو میں بتایا کہ 'ہم وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کیمپ یا ان کے حریف سے ملنے کے لیے تیار ہیں اور میں کسی کی جیب میں نہیں ہوں'۔

اسرائیل کے انتخابات میں اب تک 90 نشستوں کے نتائج سامنے آگئے ہیں اور اب تک ان کی جماعت نے 120 کے ایوان میں 5 نشستیں حاصل کی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اب تک سامنے آنے والے نتائج میں نیتن یاہو یا اس کی حریف جماعت کو حکومت سازی کے لیے واضح برتری حاصل نہیں ہوسکی ہے اور اتحاد کے لیے مذاکرات کی ضرورت ہوگی۔

یاد رہے کہ اسرائیل کے گزشتہ انتخابات میں رعام پارٹی مرکزی عرب جوائنٹ لسٹ میں شامل تھی لیکن رواں برس کے اوائل میں منصور عباس اور ان کے سابق اتحادیوں کے درمیان نظریاتی اختلاف پیدا ہوا تھا اور یہ اتحاد بھی پارہ پارہ ہوگیا تھا۔

قدامت پسند منصور عباس اور دیگر عرب اسرائیلی بشمول کمیونسٹ بنیاد رکھنے والی جماعتوں کے درمیان طویل عرصے سے اختلافات ہیں۔

گزشتہ روز پولنگ سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ نیتن یاہو سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں جبکہ نیتن یاہو ماضی میں اپنے پورے سیاسی کیریئر میں عرب-اسرائیلی جماعتوں پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر کرپشن کا الزام، فرد جرم عائد

تاہم منصور عباس کا کہنا تھا کہ عرب قیادت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ حکومت میں کسی کے ساتھ بھی اشتراک کرکے عرب کمیونٹی سے ہونے والے ظلم کو روکا جائے۔

'کوئی سرخ لکیر نہیں'

سرکاری نشریاتی اداروں کے مطابق نیتن یاہو کی اتحادی جماعتوں کو 52 نشستوں پر کامیابی ملی ہے اور ان کی طویل حکمرانی کا خاتمہ چاہنے والی جماعتوں کو 56 نشستیں ملی ہیں۔

نیتن یاہو کو 61 نشستوں کی اکثریت حاصل کرنے کے لیے منصور عباس کے ساتھ ساتھ مذہبی قوم پرست نیفتالی بینیٹ کی حمایت بھی درکار ہوگی جس کے پاس 7 نشستیں ہیں۔

حکومت سازی کے لیے اس طرح کا اتحاد دیرپا ثابت ہونے کی ضمانت نہیں دی جاتی۔

نیتن یاہو کے اتحادیوں میں عرب جماعتوں کے سخت مخالف انتہائی دائیں بازو کی مذہبی زائیونزم بلاک کے اراکین بھی شامل ہیں۔

رپورٹس کے مطابق رعام پارٹی اور صہیونی مذہبی جماعت کے درمیان اتحاد کے امکانات کم نظر آرہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ابوظہبی سربراہی کانفرنس اسرائیلی وزیراعظم کی انتخابی مہم کے باعث معطل

نیتن یاہو کا کیمپ نظریاتی طور پر تقسیم کا شکار ہے جس کے باعث انفرادی طور پر منصور عباس کو اتحاد میں شامل کرنا بہت مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔

نیتن یاہو کے گروپ میں یائر لیپڈ کی قیادت میں سیکیولریش ایتدپارٹی، نیتن یاہو سے علحدہ ہونے والی دائیں بازو کی مذہبی پارٹی لیکود اور منصور عباس کی حریف جماعت شامل ہے۔

تل ابیب یونیورسٹی کے تجزیہ کار اجمل جمال کا کہنا تھا کہ عباس نے کوئی سرخ لکیر نہیں کھینچی اور جس گروپ نے ان کے مفادات کو بہتر طور پر سمجھا ان کے ساتھ وہ اتحاد کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے تمام جماعتوں سے مذاکرات کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں