اسٹیٹ بینک سے متعلق مجوزہ قانون میں اعلیٰ افسران کیلئے 'تحفظ'

اپ ڈیٹ 26 مارچ 2021
اس قسم کی کارروائی کی صورت میں انہیں بینک کے ذریعہ ہرجانہ دیا جائے گا—وکیمیڈیا کامنز
اس قسم کی کارروائی کی صورت میں انہیں بینک کے ذریعہ ہرجانہ دیا جائے گا—وکیمیڈیا کامنز

کراچی: ایک مجوزہ بل کہ جس کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کا مقصد مرکزی بینک کو خود مختار بنانا ہے وہ عملی طور پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعلیٰ عہدیداران کو مدافعت فراہم کرے گا۔

جس کے تحت کوئی تحقیقاتی ادارہ بشمول قومی احتساب بیورو (نیب)، بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹر سے اجازت لیے بغیر ان کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مجوزہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ترمیمی) بل 2021 کی ایک شق کے مطابق 'اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری کے بغیر نیب، ایف آئی اے یا صوبائی تحقیقاتی ادارے، بیورو، اتھارٹی یا انسٹیٹیوشن کوئی کارروائی، انکوائری یا پروسیڈنگ نہیں کرسکتے'۔

یہ بھی پڑھیں: ’اسٹیٹ بینک کو خودمختار ہونا چاہیے مگر آزاد نہیں‘

اگر یہ بل پارلیمنٹ سے منظور ہوجاتا ہے تو اسی شق کا اطلاق اسٹیٹ بینک کے سابق ڈائریکٹرز، گورنرز، ڈپٹی گورنرز پر ہوگا۔

دوسری جانب موجودہ قواعد کہتے ہیں کہ بینک کی سروس کرنے والا ہر شخص پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 21 کے معنوں میں سرکاری ملازم سمجھا جائے گا، حکومت نے موجودہ ایس بی پی ایکٹ 1956 میں یکسر تبدیلیاں تجویز کی ہیں۔

مجوزہ بل کہتا ہے کہ بینک، بورڈ آف ڈائریکٹرز یا کسی رکن، گورنر، کسی بورڈ کمیٹی یا مانیٹری پالیسی کمیٹی کا رکن، کسی بھی ایکٹ آف کمیشن کے لیے بینک کے ملازمین اور افسران کے خلاف کوئی قانونی دعویٰ، مقدمہ یا کسی اور قسم کی قانونی کارروائی نہیں کی جاسکے گی۔

مزید پڑھیں: 'گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت میں 5 سال کا اضافہ ہوگا'

بل مزید کہتا ہے کہ گورنر، ڈپٹی گورنرز، ڈائریکٹرز، کسی بھی بورڈ کمیٹی یا مانیٹری پالیسی کمیٹی کے رکن، بینک کے افسران اور ملازمین نیک نیتی کے ساتھ ان کی سرکاری صلاحیت میں کیے جانے والے کسی بھی کمیشن کے کام یا غلطی کے لیے ذاتی حیثیت میں ذمہ دار نہیں ہوں گے۔

مزید برآں اس قسم کی کارروائی کی صورت میں انہیں بینک کے ذریعے ہرجانہ دیا جائے گا کو کیس کے حتمی فیصلے تک تمام اخراجات اٹھائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں