کورونا وائرس کا آغاز کیسے ہوا؟ اب تک کی مستند تحقیق سامنے آگئی

اپ ڈیٹ 31 مارچ 2021
تحقیقاتی ٹیم نے فروری میں ہی تحقیق مکمل کرلی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
تحقیقاتی ٹیم نے فروری میں ہی تحقیق مکمل کرلی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

دنیا بھر میں 13 کروڑ سے زائد انسانوں کو متاثر اور 29 لاکھ تک انسانوں کی زندگیاں نگلنے والی وبا کورونا سے متعلق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی سربراہی میں کی جانے والی اب تک کی مستند تحقیق کو بھی نامکمل قرار دے دیا گیا۔

عالمی ادارہ صحت نے رواں برس کے آغاز میں مختلف ممالک کے ماہرین صحت پر مشتمل ایک ٹیم چین بھیجی تھی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ کورونا کا وائرس کہاں سے اور کیوں پھیلا؟ کیا مذکورہ وائرس لیبارٹری میں تیار ہوا؟

مختلف امور کے ماہرین کی جانب سے فروری میں مکمل کی گئی تحقیقات کو اب رپورٹ کی صورت میں شائع کردیا گیا۔

عالمی ادارہ صحت نے 120 صفحات پر مشتمل مذکورہ رپورٹ کو 29 مارچ کو شائع کیا، جس میں اگرچہ کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ سے متعلق مفصل مگر مختصر صورت میں جوابات دیے گئے ہیں۔

تاہم اس کے باوجود مذکورہ تحقیق پر خود عالمی ادارہ صحت سمیت دیگر 14 ممالک نے بھی اعتراضات اٹھاکر اسے نامکمل قرار دیا ہے اور معاملے پر مزید تفتیش پر زور دیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے شائع کی گئی رپورٹ میں اس بات کو مکمل طرح واضح نہیں کیا گیا کہ اصل میں کورونا وائرس کہاں سے شروع ہوا؟

تاہم رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ کورونا کا وائرس چمگادڑوں سے شروع ہوا جو دوسرے جانوروں تک پہنچنے کے بعد انسانوں میں منتقل ہوا۔

اسی طرح رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ ممکنہ طور پر کورونا کا وائرس چین کے شہر ووہان کی مچھلی مارکیٹ سے انسانوں میں پھیلا تاہم اس کے امکان کم ہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے تحفظ پر پھیلنے والے ابہام اور ان کی حقیقت

اسی طرح رپورٹ میں اس بات کی جانب بھی اشارے کیے گئے ہیں کہ ممکنہ طور پر کورونا کی وبا دوسری غذائی اشیا یا جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ کورونا کا وائرس کسی لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہو تاہم اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

رپورٹ میں کورونا سے متعلق پھیلنے والے ابہام پر قدرے تفصیلی جوابات دیے گئے ہیں تاہم اس بات کی واضح وضاحت نہیں کی گئی کہ تحقیقاتی ٹیم کو چینی حکام نے کتنا مواد فراہم کیا۔

رپورٹ کی اشاعت کے بعد عالمی ادارے کے سربراہ ڈاکٹر تیدروس ایڈہانوم نے بھی رپورٹ پر خدشات ظاہر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ معاملے کی دوبارہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ تیدروس ایڈہانوم نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ لیبارٹری میں کورونا وائرس کی تیاری اور لیک ہونے کے امکانات بہت کم ہیں تاہم اسی معاملے پر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔

اسی حوالے سے امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ اور امریکا سمیت دنیا کے 14 ممالک نے رپورٹ پر خدشات کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کی وبا سے متعلق ہم کیا جان چکے ہیں؟

رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے 14 ممالک کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ رپورٹ میں واضح طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ چینی حکومت نے تحقیقاتی ٹیم کو کتنے ڈیٹا تک رسائی دی۔

امریکا، آسٹریلیا، ڈنمارک، اسٹونیا، اسرائیل، جاپان، لٹویا، لتھوانیا، ناروے، برطانیہ، سلووانیا اور جنوبی کوریا کی حکومتوں نے بھی رپورٹ پر خدشات کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ وائرس کے لیبارٹری کے معاملے کی مزید تفتیش کی جائے۔

مشترکہ رپورٹ میں اس بات کے خدشات کا اظہار کیا گیا کہ چینی حکومت کی جانب سے تحقیقاتی ٹیم کو لیبارٹری میں وائرس کی تیاری سے متعلق ڈیٹا تک رسائی نہیں دی ہوگی۔

اگرچہ عالمی ادارہ صحت نے بھی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مزید تحقیق کا مطالبہ کیا تاہم ڈبلیو ایچ او نے یہ واضح نہیں کیا کہ مزید تحقیق کے لیے عالمی ادارے نے کیا لائحہ عمل تیار کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں