عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے چین میں تحقیقات کے دوران دریافت کیا ہے کہ نیا کورونا وائرس ممکنہ طور پر انسانوں میں کسی جانور یا منجمد وائلڈ لائف مصنوعات سے منتقل ہوا اور چین میں دسمبر 2019 سے قبل کووڈ کی کسی بڑی وبا کے کوئی شواہد نہیں مل سکے۔

بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق چین میں کورونا وائرس کے ماخذ کی تحقیقات کرنے والی ڈبلیو ایچ او ٹیم کے عہدیدار پیٹر بین ایماریک نے ووہان میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی لیبارٹری سے لیک ہوکر وائرس کے پھیلنے کا خیال درست نہیں۔

خیال رہے کہ کورونا وائرس کی وبا 2019 کے اختتام پر سب سے پہلے ووہان میں ہی پھیلنا شروع ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ لیبارٹری سے وائرس پھیلنے کے خیال پر مزید تحقیق کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ درست نہیں۔

یہ وہ خیال ہے جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چند دیگر حلقوں کی جانب سے سامنے آیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا 'یہ وائرس ایک ایسے فرد سے پھیلنا شروع ہوا جو اس سے متاثر ہوا اور پھر وائلڈ لائف مارکیٹ میں دیگر افراد میں اسے پھیلا دیا، یہ فرد ممکنہ طور پر مارکیٹ کا تاجر یا وہاں آنے والا ہوسکتا ہے، مگر وہ اس سے کسی پراڈکٹ سے متاثر ہوا ہوگا'۔

انہوں نے ووہان کی ہیوانان مارکیٹ کا حوالہ دیا تھا، جس کے بارے میں اکثر افراد سوچتے ہیں کہ کووڈ کے اولین مریضوں کا تعلق یہی سے تھا۔

ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار نے کہا 'ہمارے خیال میں سب سے زیادہ امکان منجمد جانوروں کا ہے، ان میں سے کچھ اقسام میں اس طرح کے وائرسز کی موجودگی کا امکان ہوتا ہے'۔

عالمی ادارہ صحت کا یہ اہم ترین مشن جنوری سے ووہان میں وائرس کی ابتدا کی جانچ پڑتال کا کام کررہا ہے۔

اس تحقیقاتی مشن کی جانب سے 2019 کے آخر میں کووڈ سے متاثر افراد کے سامنے آنے سے قبل لاکھوں مریضوں کے نمونوں کا تجزیہ بھی کیا گیا۔

پیٹر بین ایماریک نے کہا 'ہم نے 2019 کے دوران ممکنہ طور پر علم میں نہ آنے والے دیگر کیسز کی دریافت کے لیے ایک تفصیلی تحقیق بھی کی، مگر ہم دسمبر 2019 سے قبل کسی بڑی وبا کے شواہد ووہان یا کسی اور جگہ تلاش نہیں کرسکے'۔

اس تحقیقاتی ٹیم میں 17 بین الاقوامی اور 17 چینی ماہرین شامل ہیں اور وہ ایسے سراغ تلاش کررہے ہیں، جس سے علم ہوسکے کہ یہ نیا کورونا وائرس ووہان میں تیزی سے پھیل کر دنیا بھر میں پہنچ گیا۔

وائرس کے ذریعے کی تلاش سے مستقبل میں اس طرح کے وائرسز کو وبا کی طرح پھیلنے سے روکنا ممکن ہوسکے گا۔

اس تحقیقاتی مشن میں شامل افراد 3 گروپس میں کام کررہے ہیں، جو بیماری کے پھیلاؤ، وبا، ان کو پھیلانے والے جانوروں اور ماحول اور وائرس کے مالیکیولر ارتقا پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

تحقیق میں جینیاتی سیکونس ڈیٹا کو استعمال کرکے مریضوں، جنگلی حیات اور ماحول کے درمیان تعلق کو جاننے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ویسے تو مانا جاتا ہے کہ یہ وائرس چمگادڑوں سے انسانوں تک پہنچا، تاہم ایسا کیسے ہوا یہ فی الحال مععلوم نہیں۔

تاہم کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ووہان انسٹیٹوٹ آف وائرلوجی میں چمگادڈروں سے پھیلنے والے کورونا وائرسز پر کام ہورہا ہے اور یہ نیا وائرس وہاں سے کسی طرح باہر نکلا۔

ڈبلیو ایچ او مشن کے اراکین نے گشتہ ہفتے اس لیبارٹری کا دورہ کیا تھا اور وہاں کے ماہرین سے بات کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں