پاکستان میں آزادیِ اظہار کی صورتحال بدتر ہوگئی، رپورٹ

اپ ڈیٹ 01 اپريل 2021
پاکستان کو 100 میں سے 30 نمبر ملے—فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کو 100 میں سے 30 نمبر ملے—فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان میں آزادی اظہار، میڈیا ایڈوکیسی، صحافیوں کے حقوق اور ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی تنظیم کی جانب سے کرائی گئی حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں 2020 میں آزادی اظہار کی صورتحال مزید بدتر ہوگئی۔

’پاکستان فریڈم آف ایکسپریشن رپورٹ 2020‘ میں کہا گیا کہ کورونا کی وبا کے باعث جہاں گزشتہ برس صحافیوں اور آزادی اظہار رائے کے لیے کام کرنے والے ارکان اور اداروں کو مشکلات پیش آئیں، وہیں حکومتی قوانین نے بھی آزادی اظہار رائے کے پیمانے کو مزید نیچے کردیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں صحافیوں اور آزادی اظہار کے لیے کام کرنے والے کارکنان کے قانونی تحفظات، آزادی صحافت، ڈیجیٹل اظہار رائے، اجتماعیت، سیاسی و سماجی ماحول، اور اظہار رائے کے معاملات مزید بد تر ہوگئے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں ملک میں آزادی اظہار، ڈیجیٹل رائٹس، قانونی تحفظات، آزادی صحافت، سیاسی و سماجی تحفظ سمیت 6 شعبوں کی کارکردگی کو دیکھا گیا اور اس ضمن میں سروے کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیا سنسرشپ کی کوششوں پر صحافیوں کا اظہار تشویش

سروے کے بعد مذکورہ 6 ہی شعبوں میں ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آزادی اظہار کے حوالے سے پاکستان کو نمبرز دیے گئے۔

مجموعی طور پر پاکستان نے آزادی اظہار کے معاملے پر 100 میں سے صرف 30 نمبر ہی حاصل کیے، کیوں کہ ملک میں ڈیجیٹل رائٹس، آزادی صحافت، قانونی تحفظات سمیت سیاسی و سماجی تحفظ جیسے معاملات کا فقدان دیکھا گیا۔

رپورٹ کے نتائج میڈیا، سیاست، انسانی حقوق، قانون، اور تدریس کے شعبوں سے وابستہ ماہرین سے سروے کیے جانے کے بعد اخذ کیے گئے۔

سروے میں شامل زیادہ تر افراد نے آزادی صحافت، ڈیجیٹل رائٹس، قانونی تحفظات اور سیاسی و سماجی تحفظ سمیت کسی شعبے کو مکمل یعنی 100 نمبر نہیں دیے۔

رپورٹ میں سال 2020 میں حکومتی اداروں کی جانب سے آزادی اظہار پر قدغن لگانے کے لیے بنائے گئے قوانین کا ذکر بھی کیا گیا اور بتایا گیا کہ پاکستان میں پیمرا اور پی ٹی اے نے اظہار رائے اور آن لائن مواد پر اکثر اوقات صوابدیدی قدغن لگائی اور سوشل میڈیا، تفریحی پروگراموں، اور سیاسی اور سماجی امور پر خبروں اور تبصروں کے خلاف اقدامات اٹھائے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ برس صحافی جسمانی، قانونی اور ڈیجیٹل دھمکیوں کی زد میں رہے جبکہ ان کے تحفظ کے حوالے سے کوئی قانون سازی بھی نہ کی جا سکی۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں 2020 میں دس صحافی قتل، متعدد گرفتار ہوئے، سی پی این ای

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ برس خواتین صحافیوں کو خاص طور پر سوشل میڈیا پر منظم حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال میڈیا سے تعلق رکھنے والے آٹھ افراد قتل ہوئے، 36 صحافیوں کو کام کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 10 کو حراست میں لیا گیا، اور 23 کے قریب صحافیوں کو رپورٹنگ یا ان کے آن لائن اظہار رائے کے حوالے سے عارضی طور پر حبس بےجا میں رکھا گیا۔

رپورٹ میں حکومت کو کچھ تجاویز بھی دی گئی ہیں، جن میں سے حکومت کو صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

مذکورہ رپورٹ کو میڈیا میٹرس فار ڈیموکریسی (ایم ایم ایف ڈی)، پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) سینٹر فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو (سی پی ڈی) اور یورپین یونین (ای یو) نے مشترکہ طور پر رپورٹ شائع کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں