لاہور کے 3 ہسپتالوں میں کورونا ویکسین ‘اسکینڈل‘ سامنے آگیا

اپ ڈیٹ 02 اپريل 2021
ہسپتال انتظامیہ نے مبینہ طور پر غیر مجاز افراد کو ویکسین دی یا اس کی بہت سی خوراک ضائع کردی ہے، رپورٹ - فائل فوٹو:رائٹرز
ہسپتال انتظامیہ نے مبینہ طور پر غیر مجاز افراد کو ویکسین دی یا اس کی بہت سی خوراک ضائع کردی ہے، رپورٹ - فائل فوٹو:رائٹرز

پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے تین سرکاری ہسپتالوں میں کووڈ 19 ویکسین کا نیا ‘اسکینڈل‘ سامنے آگیا جہاں ہسپتال انتظامیہ نے مبینہ طور پر غیر مجاز افراد کو ویکسین دی یا اس کی بہت سی خوراکیں ضائع کردیں جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اب تک اس طرح کی شکایات سروسز، جناح اور مزنگ ہسپتالوں سے سامنے آئی ہیں۔

اب تک کی ابتدائی معلومات کے مطابق چین کی طرف سے عطیہ کی جانے والی ویکسین کی تقریباً ایک ہزار 400 خوراکیں یا تو 'غیر مجاز افراد' کو دی گئیں ہیں یا وہ 'لاپتا' ہیں۔

مزید پڑھیں: کیا کورونا ویکسین کے استعمال کے بعد بھی فیس ماسک پہننا ضروری ہوگا؟

یہ ویکسین وفاقی حکومت نے صرف شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد کو لگانے کے لیے ہسپتالوں کو فراہم کی تھیں۔

محکمہ صحت کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا شکایات کے بعد حکومت پنجاب نے حقائق تلاش کرنے کے لیے تحقیقات کا آغاز کیا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ سروسز ہسپتال لاہور کو معروف شخصیات کو ویکسین دینے کے الزامات کا سامنا ہے جن میں وزرا کے والدین اور حکمران طبقے کے دیگر افراد شامل ہیں۔

یہ ویکسین سابق میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (سروسز ہسپتال) ڈاکٹر سلیم چیمہ کے دور میں دی گئی تھی جنہوں نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی۔

یہ بھی پڑھیں: سائنوفارم ویکسین کی 60 سال سے زائد عمر کے افراد میں استعمال کی منظوری

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر یہ ویکسین صرف شعبہ صحت سے وابستہ پیشہ ور افراد کو دی جارہی تھی پھر بعد ازاں 60 سال سے زائد اور حال ہی میں 50 سال سے زائد افراد کو یہ ویکسین دینے کی پالیسی مرتب کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد سروسز ہسپتال میں ایم ایس کی حیثیت سے اپنے دور میں (جو 19 مارچ کو ختم ہوا تھا) بزرگ افراد کو پن کوڈ کے ساتھ صحت کی سہولت کا دورہ کرنے پر ٹیکے لگائے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ویکسین کی تمام شیشیاں دستیاب ہیں، استعمال شدہ / خالی شیشیوں کا اسٹاک اور ریکارڈ بھی برقرار ہے'۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کورونا ویکسین بد انتظامی کا معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا جب این سی او سی کا نظام بیٹھ گیا اور ویکسینیشن کا ریکارڈ سسٹم میں شامل نہیں کیا جاسکا۔

سابق ایم ایس نے بتایا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک یہ نظام صحیح کام نہیں کر رہا ہے اور ہسپتالوں اور ویکسینیشن مراکز کو ڈیٹا کے اندراج میں مسئلہ درپیش ہے۔

دریں اثنا سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پنجاب حکومت کے تشکیل کردہ انکوائری پینل نے سروسز ہسپتال کا ریکارڈ محفوظ کیا اور انتظامیہ کے چند عہدیداروں اور دیگر متعلقہ افراد پر دباؤ ڈالا۔

مزید پڑھیں: حکومت کا ویکسین کی فوری خریداری کا کوئی ارادہ نہیں، پی اے سی میں انکشاف

اسی طرح انہوں نے کہا کہ جناح ہسپتال اور گورنمنٹ ٹیچنگ ہسپتال مزنگ کو بھی غیر مجاز لوگوں کو قطرے پلانے اور شیشیوں کے ضیاع کا مسئلہ درپیش ہے۔

دریں اثنا کورونا ویکسین ختم ہونے پر میو ہسپتال کو ایک سنگین مسئلے کا سامنا کرنا پڑا اور صحت کے پیشہ ور افراد کو گزشتہ تین روز سے ویکسین نہیں مل سکی ہے۔

میو ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر افتخار احمد نے ڈان کو تصدیق کی کہ ویکسین کی عدم دستیابی کے سبب صحت کے پیشہ ور افراد کو کورونا سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جاسکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ وفاق سے نیا اسٹاک حاصل کیا جاسکے اور اس مسئلے کو ‘خوش دلی سے’ حل کیا جائے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میو ہسپتال میں 3 ہزار سے زائد صحت کے پیشہ ور افراد کو قطرے پلائے گئے اور بہت سے افراد اپنی باری کے منتظر ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں