کووڈ 19 کے نتیجے میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد میں اعضا کو طویل المعیاد بنیادوں پر اعضا کو نقصان پہنچنے کے خطرے کا سامنا ہوتا ہے۔

یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

طبی جریدے برٹش میڈیکل جرنل میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ اس خطرے کا سامنا صرف بزرگوں کو نہیں ہوتا بلکہ ہر عمر کے افراد میں یہ خطرہ ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ کووڈ 19 کے نتیجے میں نظام تنفس کو تو نقصان پہنچتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ دیگر اعضا اور جسمانی نظام بشمول دل، گردوں اور جگر پر بھی اثرات مرتب کرتا ہے۔

کووڈ 19 کے شکار ہونے کے 12 ہفتوں کے بعد مریضوں کی اکثریت کو متعدد علامات کا سامنا ہوتا ہے جو کہ پوسٹ کووڈ سینڈروم یا لانگ کووڈ کا حصہ سمجھی جاتی ہیں، تاہم اعضا کو طویل المعیاد بنیادوں پر پہنچنے والے نقصان کے بارے میں بھی ابھی کافی کچھ معلوم نہیں۔

اس مقصد کے لیے برطانیہ کے آفس فار نیشنل اسٹیٹکس، لندن کالج یونیورسٹی اور لیسٹرشائر یونیورسٹی کے ماہرین نے ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں کے اعضا پر مرتب اثرات کا جائزہ لیا گیا اور اس کا موازنہ عام آبادی سے کیا گیا۔

تحقیق کے نتائج 47 ہزار سے زیادہ افراد پر مبنی تھے جن کی اوسط عمر 65 سال تھی اور وہ کووڈ 19 کے باعث برطانیہ کے ہسپتالوں میں زیرعلاج رہے اور 31 اگست تک انہیں ڈسچارج کیا گیا۔

ان مریضوں کے کے ہیلتھ ریکارڈز، ہسپتال میں دوبارہ داخلے کی شرح، نظام تنفیس، دل کی شریانوں، میٹابولک، گردوں اور جگر کے امراض کی تشخیص کو مدنظر رکھا گیا۔

تحقیق کے مطابق ہسپتال سے ڈسچارج کے بعد اوسطاً 140 دن میں لگ بھگ ایک تہائی افراد (14 ہزار 70 افراد) دوبارہ ہسپتال میں داخل ہوئے اور ہر 10 میں سے ایک سے زیادہ (5785 افراد) ڈسچارج کے بعد انتقال کرگئے۔

محققین کے مطابق اس حساب سے ہر ایک ہزار میں سے 766 دوبارہ ہسپتال میں داخل ہوئے جبکہ 320 ہلاک ہوگئے، جو کہ عام آبادی کے موازنے میں بالترتیب 4 اور 8 گنا زیادہ تعداد ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد میں صحتیابی کے بعد نظام تنفس کے امراض (ہر ایک ہزار میں سے 539)، دل کی شریانوں کے امراض (ہر ایک ہزار میں سے 66) اور ذیابیطس (ہر ایک ہزار میں سے 66) کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا، جو کہ عام آبادی کے موازنے میں بالترتیب 287، 3 اور ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔

یہ ایک بڑی اور منظم تحقیق تھی جس میں 10 سال کے طبی ریکارڈز کو استعمال کرکے کووڈ 19 کے مریضوں کا موازنہ عام آبادی سے کیا گیا۔

تاہم محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید کام کیے جانے کی ضرورت ہے تاکہ لانگ کووڈ کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کو سمجھا جاسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں