خیبر پختونخوا: انضمام شدہ علاقوں کے طلبہ 2 سال بعد بھی وظیفہ اسکیم سے محروم

اپ ڈیٹ 05 اپريل 2021
حکومت نے 2 سال قبل علاقے میں سرکاری اسکولز کے طلبہ کو ماہانہ وظیفے کے طور پر 2 ارب 60 کروڑ روپے ادا کرنے کا پروگرام منظور کیا تھا۔ - فائل فوٹو:سمیرا ججہ
حکومت نے 2 سال قبل علاقے میں سرکاری اسکولز کے طلبہ کو ماہانہ وظیفے کے طور پر 2 ارب 60 کروڑ روپے ادا کرنے کا پروگرام منظور کیا تھا۔ - فائل فوٹو:سمیرا ججہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت کے صوبے میں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں سرکاری اسکولوں کے طلبہ کو ماہانہ وظیفے کے طور پر 2 ارب 60 کروڑ روپے جاری کرنے کا پروگرام تقریباً دو سال گزرنے کے باوجود غیر فعال ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ محکمہ ابتدائی اور ثانوی تعلیم (ای اینڈ ایس ای) کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) برائے 20-2019 میں اس کی منظوری کے بعد سے صرف اس پر غور کیا جارہا ہے کہ وظیفہ اسکیم کو کس طرح عمل میں لایا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ فیڈرل گورنمنٹ کی جانب سے تیز رفتار عمل درآمد پروگرام کے تحت اس پروگرام کی مالی اعانت فراہم کی گئی تاکہ وہ عسکریت پسندی سے متاثرہ قبائلی علاقوں میں اسکولوں میں داخلے کی تعداد بڑھائی جاسکے۔

انضمام شدہ سات اضلاع میں خیبر، مہمند، باجوڑ، کرم، اورکزئی، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا: بیوروکریسی فاٹا انضمام کے منصوبے پر عمل درآمد میں رکاوٹ قرار

اس پروگرام کے تحت نرسری سے لے کر سیکنڈری کلاس تک کی ہر طالبات کو ایک ہزار روپے ماہانہ وظیفہ اور پرائمری اسکولوں اور سیکنڈری اسکول کے ہر ایک طلبہ کو بالترتیب 500 روپے اور ایک ہزار روپے دیے جانے تھے۔

اس اسکیم پر عمل درآمد نہ ہونے سے 6 لاکھ 31 ہزار 376 طلبہ، جن میں ایک لاکھ 74 ہزار 32 لڑکیاں بھی شامل ہیں، کو منصوبہ بند وظیفے سے محروم کردیا گیا ہے۔

محکمہ ای اینڈ ایس ای کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سرکاری اسکولوں میں مجموعی طلبہ میں سے ایک لاکھ 30 ہزار 322 طلبہ ضلع باجوڑ، 60 ہزار 962 مہمند، ایک لاکھ 8 ہزار 609 خیبر، 36 ہزار 516 اورکزئی، 75 ہزار 192 کرم، 85 ہزار 11 شمالی وزیرستان اور 45 ہزار 661 جنوبی وزیرستان کے علاوہ مختلف سب ڈویژنز، حسن خیل سب ڈویژن میں شامل 14 ہزار 774، درہ آدم خیل میں 17 ہزار 459، وزیر میں 26 ہزار 544، بٹانی میں 7 ہزار 8، جنڈولا میں 13 ہزار 265 اور درہ میں 10 ہزار 53 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

صوبے کے وزیر تعلیم شہریار خان ترکئی معاملے پر رائے کے لیے دستیاب نہیں ہوسکے تاہم محکمہ تعلیم کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ عہدے داروں نے وظیفہ کی فراہمی کے لیے متعدد طریقوں پر غور کیا مگر فاٹا کی موجودہ صورتحال میں انہیں ناقابل عمل پایا۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی: فاٹا انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم کا بل بھاری اکثریت سے منظور

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے محکمہ تعلیم نے بینکوں اور موبائل فون کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے حال ہی میں اخباروں میں ٹینڈر جاری کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جواب میں مختلف بینکوں اور موبائل کمپنیوں نے معاہدے کے لیے درخواست دی جس میں سے محکمہ تعلیم نے تین بینکوں اور دو موبائل کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری اسکولوں میں اندراج شدہ طلبہ کے مصدقہ اعداد و شمار کا نہ ہونا وظیفہ پروگرام پر عمل درآمد میں تاخیر کی ایک اور وجہ ہے۔

ایک ماہر تعلیم نے ڈان کو بتایا کہ ایسے وظیفہ پروگرام کے حوالے سے میں پنجاب میں اثرات کے جائزوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں لڑکیوں کے اندراج میں اضافہ ہوا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں