شجر کاری کے ماہرین نے کہا ہے کہ کراچی میں کوئی بھی شجرکاری مہم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک حکومت درختوں کے تحفظ اور پودے لگانے سے متعلق کوئی قانون سازی نہیں کرتی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں سبزہ کو بہتر بنانے کے لیے شروع ہونے والی شجرکاری مہم کے بارے میں ماہرین نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: شجر کاری مہم کا افتتاح: کورونا ختم نہیں ہوا، ماسک پہن کر گھر سے نکلیں، عمران خان

کراچی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمنٹل اسٹڈیز میں استاد اور محقق ڈاکٹر ظفر اقبال شمس نے کہا کہ عارضی یا غیر سائنسی طریقہ کار کے ساتھ کبھی بھی مثبت اور پائیدار نتائج سامنے نہیں آسکتے۔

انہوں نے کہا کہ عوامی مقامات پر شجرکاری کے لیے مکمل منصوبہ بندی پر عمل کرنا چاہیے جس کا مطلب ہے کہ زمین اور مٹی کی خصوصیات کا مطالعہ اور سائٹ شہری نظام کے بنیادی ڈھانچے اور زیر زمین نظام کے بارے میں تفصیلات حاصل کرنا۔

انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ اس مقصد کے لیے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سمیت عوام کی شرکت ضروری ہے جو پودے لگانے کی پائیداری کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب میں درختوں کی کٹائی پر پابندی عائد کردی

ان کا کہنا تھا کہ اگر ان عوامل کو نظرانداز کردیا گیا تو پودے یا تو جلد ہی مرجائیں گے یا غیر مستحکم نمو سے دوچار ہوں گے اس طرح پیسہ، وقت اور توانائی ضائع ہوں گے۔

کراچی میں سبزے کے بارے میں پوچھے جانے پر جامعہ کراچی کے شعبہ جغرافیہ کے پروفیسر جمیل کاظمی نے بتایا کہ شہر کا سبزہ 1998 میں 500 مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 2008 میں 570 مربع کلومیٹر تک پھیل گیا جس کی وجہ سے کوناکارپس اور مینگروز کی کاشت کاری اور زراعت کے شعبے میں توسیع تھی۔

انہوں نے بتایا کہ جو 2018 اور 2019 میں (شہر کے اندر) گھٹ کر 260 مربع کلومیٹر رہ گیا تھا جو تقریباً 50 فیصد بنتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زمینی سطح پر پانی کی کمی، ندی کے کنارے سے ریت اور کنکر کے بڑے پیمانے پر نکالنے کی وجہ سے زرعی رقبے میں کمی ہوئی۔

مزید پڑھیں: شجرکاری مہم: آئندہ جون تک ایک ارب درخت لگا دیں گے، عمران خان

پروفیسر جمیل کاظمی نے بتایا کہ شہر میں سبزہ صرف ماحول دوست رویہ کے ساتھ ہی بڑھ سکتا تھا اگر درختوں کو قانون کے تحت محفوظ کیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ مختلف ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے ہزاروں درخت کاٹ دیے جاتے ہیں اور متبادل کے طور پر چند سو پودے لگائے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم یا تو غیر ملکی نسل کی پودوں کو دیکھتے ہیں یا ایسی نسلیں جو کسی خاص زمین کے لیے موزوں نہیں ہیں اور اس کا نتیجہ مایوس کن ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں پروفیسر جمیل کاظمی نے حال ہی میں حکومت سندھ کی جانب سے یونیورسٹی روڈ پر کھجور کے درخت لگانے کا حوالہ دیا جو 90 فیصد درخت مرجھا چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کھجور کے یہ درخت خیرپور سے لائے گئے تھے۔

ڈاکٹر ظفر اقبال شمس نے بتایا کہ کوناکارپس اور یوکلپٹس کو مناسب منصوبہ بندی اور دیکھ بھال کے ساتھ لگائے جائیں یہ علاقے میں مٹی سے متعلق مسائل کو بہتر بنانے میں مدد کرسکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں