پیپلزپارٹی کا پی ڈی ایم کے تمام عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان

اپ ڈیٹ 12 اپريل 2021
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی سے معافی مانگے---فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی سے معافی مانگے---فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے تمام عہدوں سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کردیا۔

کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی ڈی ایم کے شوکاز نوٹس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاست عزت اور برابری کے ساتھ کی جاتی ہے۔

مزیدپڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن کا پی ڈی ایم لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان

انہوں نے مطالبہ کیا کہ پی ڈی ایم شوکاز نوٹس پر پیپلز پارٹی اور اے این پی سے غیر مشروط معافی مانگے۔

واضح رہے کہ بلاول بھٹو نے گزشتہ روز سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے دوران پی ڈی ایم کی جانب سے بھیجے گئے شوکاز نوٹس کو پھاڑ دیا تھا، اجلاس میں شریک ایک رہنما نے بتایا تھا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی نے پارٹی رہنماؤں کا مؤقف سننے کے بعد اور اپنا خیال پیش کرنے سے پہلے ہی وہ کاغذ (پی ڈی ایم کا نوٹس) پھاڑ دیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے ایٹم بم ہیں، آخری ہتھیار ہونا چاہیے اور ہمارا آج بھی یہی مؤقف ہے، کل بھی یہی مؤقف تھا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ جس کو استعفیٰ دینا ہے دے دیں لیکن کسی پارٹی کو ڈکٹیٹ نہیں کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اے این پی کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے ان کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ شوکاز دینے کی کوئی مثال پاکستان کی تحریکوں میں نہیں ملتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی کو شوکاز نوٹس نہیں دیا گیا جب پی ڈی ایم کے ایکشن پلان پر عمل نہیں ہورہا تھا۔

بلاول بھٹو زرداری نے وضاحت کی کہ ہم دوسری جماعتوں کے کہنے پر ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کرتے تو ساری نشستیں پی ٹی آئی جیت جاتی۔

مزیدپڑھیں: پی ڈی ایم کا مستقبل اب کیا ہوگا؟

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں سینیٹ کی 5 نشستیں پی ٹی آئی کو دی گئیں تو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔

پارٹی کے چیئرمین نے زور دیا کہ ’ہم پر کوئی اپنے فیصلے مسلط نہ کرے‘۔

انہوں نے واضح کیا کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) نے پی ڈی ایم کے شوکاز نوٹس کو مسترد کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے جدوجہد میں پیھچے نہیں ہٹ سکتے اور اے این پی کے ساتھ کھڑے ہیں، فیصلے صلاح و مشورے سے کریں گے، ہم اپوزیشن کے خلاف اپوزیشن کی سیاست کی مذمت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے گلگت بلتستان میں اقلیت میں ہوتے ہوئے قائد حزب اختلاف کا حق چھیننے کی کوشش کی تھی۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارے دروازے ہر اس پارٹی کے لیے کھلے ہیں جو حکومت کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’آخری موقعے پر لانگ مارچ اور استعفے کو نتھی کرنے کا نقصان اپوزیشن کو بہت نقصان پہنچایا گیا ہے لیکن ہم حکومت کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھیں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: 'ایک تھی پی ڈی ایم، جو ماضی کا حصہ بن چکی ہے'

ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری کا معاملہ مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں لایا جائےگا۔

علاوہ ازیں انہوں نے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے متعلق بتایا کہ کمیٹی نے مسلح افواج کی جان بوجھ کر تضحیک کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان پینل کوڈ اور ضابطہ فوجداری 1898 میں ممکنہ ترمیم کو مسترد کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ای سی ای نے سینیٹ میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے قبل ایوان بالا میں پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمروں کے معاملے پر سخت تحقیقات کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ خفیہ کیمرے کی موجودگی سے سینیٹ کے انتخاب میں دھاندلی کے مترادف ہے، اس عمل سے سینیٹ کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے ایئر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کو آرڈیننس کے ذریعے ہٹانے کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

علاوہ ازیں بلاول بھٹو زرداری نے کورونا ویکسین سے متعلق کہا کہ حکومت شہریوں کو ویکسین فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے وفاق پر زور دیا کہ وہ وائرس کے خلاف موثر اقدامات کے تحت ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنائے۔

'اسٹیٹ بینک سے متعلق آرڈیننس کو عدالت میں چیلنج کریں گے'

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہماری پارٹی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی عوام دشمن ڈیل کی پہلے دن سے مخالفت کی ہے۔ یہ ڈیل پاکستان کے عوام اور مجموعی طور پر معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔

مزیدپڑھیں: مولانا اور نواز شریف کا پیپلز پارٹی کے پی ڈی ایم چھوڑنے کی صورت میں بھی آگے بڑھنے پر اتفاق

بلاول بھٹو زرداری نے اسٹیٹ بینک سے متعلق آرڈیننس کے حوالے سے کہا کہ اس اقدام سے پاکستان کے غریب عوام پر بوجھ پڑے گا، ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں اور ہماری پارٹی مطالبہ کرتی ہے کہ پاکستان کو اس اقدام سے نکلنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی-آئی ایم ایف ڈیل سے خود کو الگ رکھنا چاہیے۔

بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ مذکورہ ڈیل پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے جو اس کی خود مختاری کو خطرے میں ڈال دے، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھا کر مہنگائی میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ میں اس آرڈیننس کو پاکستان کی عدالت میں چیلنج کروں گا یہ کیسا آرڈیننس ہے کہ اسٹیٹ بینک، پاکستان کی پارلیمنٹ اورعدالت کو جوابدہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اس آرڈیننس کو مسترد کرتی ہے اور ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم رمضان میں ہی پی ٹی آئی-آئی ایم ایف کی اس ڈیل کے خلاف مہم چلائیں گے۔

'کشمیرپر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے'

بلاول بھٹو نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر حکومتِ وقت کی جو متضاد اور کنفیوزنگ پوزیشن ہے، ہم پہلے دن سے اس کی مخالفت کررہے ہیں۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور کشمیر کے عوام کا رشتہ، 3 نسلوں کا رشتہ ہے اور شہید ذوالفقار بھٹو سے لے کر آج تک ہم نے کشمیر کے عوام کے کاز پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ہمشیہ کشمیر کے عوام کی آواز بنے ہیں، ان کے ساتھ جو ظلم ہورہا ہے اور نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کےٓ بعد اور اس سے پہلے جو حملے ہوتے آرہے ہیں ہم ہمیشہ ان کی آواز بنتے ہیں۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہمارے کشمیری بھائیوں کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے، جو ظلم کیا جارہا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاں تک ریاستِ پاکستان کی بات ہے تو موجودہ حکومت کا جو رویہ، خارجہ پالیسی اور کشمیر پر متضاد اور الجھن کا شکار پوزیشن رہی ہے ہم نہ صرف اس کی مذمت کرتے ہیں بلکہ سمجھتے ہیں کہ اس ماحول میں حکومت کی پالیسی متضاد نہیں ہونی چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر، پاکستان میں سب سے اہم مسئلہ ہے، جب ہماری کشمیری بہن، بھائی ایک تاریخی ظلم اور حملے برداشت کررہے ہیں تو پاکستان، پاکستان کی قیادت اور حکومت پر فرض تھا کہ وہ کشمیری جو نہیں کرسکتے تھے وہ ہم نے کرنا تھا لیکن افسوس کے ساتھ حکومتِ وقت کبھی بھی اس نکتے پر پوری نہیں اتری۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پہلے دن سے جب پورے ملک کو، پوری دنیا کو پتا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے منشور میں کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کا نکتہ شامل تھا تو الیکشن مہم کے دوران وزیراعظم پاکستان نے کہا تھا کہ مودی اگر الیکشن جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'تاریخ میں یاد رکھا جائے گا کہ ایسا وزیراعظم بھی تھا جو کشمیر کاز کے حوالے سے ناکام تھا'۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت میں انتخابات کے بعد جب 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر پر تاریخی حملہ ہوا، آئینی حیثیت تبدیل کی گئی، تو قومی اسمبلی کے فلور پر وزیراعظم کا ردعمل تھا ' میں کیا کروں؟'۔

انہوں نے کہا کہ اچانک سے وزیراعظم کو خیال آیا کہ مودی تو فاشسٹ ہیں اور یہ کہا تھا کہ جب تک 5 اگست کا فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا ہم بھارت سے بات نہیں کریں گے، اب اچانک وزیراعظم بھارت سے بات کرنے کا کہہ رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں