لاہور: قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی منی لانڈرنگ ریفرنس میں ضمانت قبل از گرفتاری سے متعلق درخواست پر لاہور ہائیکورٹ (ایل ایچ سی) کے ججز نے الگ الگ فیصلہ سناتے ہوئے ریفری جج کی نامزدگی کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے ضمانت منظور کی تھی جبکہ جسٹس اسجد جاوید گورال نے مسترد کردی تھی۔

مزید پڑھیں: تحریری حکم نامہ جاری ہونے تک شہباز شریف کی رہائی میں تاخیر

اپنے حکم میں جسٹس اسجد جاوید گورال نے سینئر جج پر 'یکطرفہ طور پر' ضمانت دینے کا تذکرہ کیا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ دیکھنا میرے لیے حیرت کی بات ہے کہ مذکورہ حکم کے ابتدائی پیراگراف میں اس کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ درخواست گزار کو متفقہ طور پر ضمانت دینے کا اعلان کیا گیا تھا جو زمینی حقیقت کے منافی ہے۔

جسٹس اسجد جاوید گورال نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ 'حقیقت میں فریقین کو سننے کے بعد جب میرے برادر ساتھی نے درخواست کی اجازت دینے کے لیے میری رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کی تو میں نے عدالت میں انکار کردیا اور چیمبر میں مشاورت کے وقت بھی میں نے فوراً ہی انکار کردیا تھا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ میرے برادر ساتھی نے یکطرفہ طور پر اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اپنے نائب قاصد کے ذریعے درخواست گزار کی ضمانت منظور کی۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور

جج نے ریمارکس دیے کہ وہ کچھ منٹ بعد ہی صورتحال کو ایل ایچ سی چیف جسٹس کے نوٹس میں لا چکے تھے لیکن 'میرے برادر ساتھی مجھے دستخط کے لیے مختصر آرڈر ارسال کرچکے تھے جس کے لیے کوئی جواز نہیں تھا'۔

جسٹس اسجد جاوید گورال نے ریماکس دیے کہ 'یہ عدالتی تاریخ کی بہت بدقسمت اور نایاب مثال ہے جس میں ڈویژن بینچ کے سربراہ اور سینئر ممبر سے توقع نہیں کی جا سکتی تھی'۔

کیس کے حقائق پر گفتگو کے بعد جسٹس اسجد جاوید گورال نے ریماکس میں کہا کہ 'یہ کہنا کافی ہے کہ درخواست گزار کو مبینہ جرم سے جوڑنے کے لیے ریکارڈ میں کافی حد تک مبہم مواد موجود ہے اور اس طرح دعویدار ریلف کا حقدار نہیں ہے'۔

جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے اپنے حکم میں کہا کہ 'ضمانت کی منظوری سے متعلق متفقہ حکم کا اعلان کیا گیا تھا' لیکن جب درخواست گزار کی رہائی کا مختصر حکم جسٹس اسجد جاوید گورال کے دستخط کے لیے پیش کیا گیا تو انہوں نے اپنا اختلافی نوٹ پیش کردیا۔

مزید پڑھیں: نیب نے شہباز شریف کے خلاف ایک اور کیس کی تحقیقات شروع کردیں

ڈویژن بینچ کے سینئر ممبر نے کہا کہ لہذا ہم الگ الگ آرڈر دے رہے ہیں اور اس کی تکمیل کے بعد ریفری جج کی نامزدگی کے لیے معاملہ چیف جسٹس کے سامنے رکھا جائے گا۔

شہباز شریف کو ضمانت دیتے ہوئے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے ریماکس دیے تھے کہ ریفرنس کی پیروی سے یہ معلوم چلا کہ بدعنوانی یا اختیارات کے ناجائز استعمال کے کسی بھی الزام کے تحت درخواست گزار کے خلاف الزام عائد نہیں کیا گیا۔

انہوں نے ٹرائل کورٹ کی ایک رپورٹ کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ اس مقدمے کی سماعت میں 10 سے 12 ماہ لگیں گے۔

جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے ریمارکس دیے کہ 'درخواست گزار عوامی نمائندہ ہیں اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں جنہیں اپنے آئینی اور قانونی فرائض ادا کرنے ہوتے ہیں، وہ ماضی میں مجرم نہیں رہے اور موجودہ کیس میں پری ٹرائل کی سماعت سے گزر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں