لاہور ہائیکورٹ: منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 14 اپريل 2021
شہباز شریف کو گزشتہ برس ستمبر میں نیب نے احاطہ عدالت سے گرفتار کیا تھا—فائل فوٹو:اے پی
شہباز شریف کو گزشتہ برس ستمبر میں نیب نے احاطہ عدالت سے گرفتار کیا تھا—فائل فوٹو:اے پی

لاہور ہائیکورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔

لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے منی لانڈرنگ ریفرنس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کر کے فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے کچھ ہی دیر میں سنادیا گیا۔

عدالت نے صدر مسلم لیگ (ن) کو ضمانت کے لیے 50 لاکھ روپے کے 2 مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیں:منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کی درخواست پر شہباز شریف کے وکیل کے دلائل مکمل

گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں شہباز شریف کے وکیل اعظم تارڑ نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے جس کے بعد آج پراسیکیوٹر نیب فیصل بخاری نے دلائل دیتے ہوئے شہباز شریف کی ضمانت کی مخالفت کی۔

نیب وکیل نے کہا کہ وراثت میں رمضان شوگر مل شہباز شریف خاندان اور چوہدری شوگر مل نواز شریف خاندان کو ملی، 1990 سے قبل شہباز شریف خاندان کے اثاثے ایک کروڑ 65 لاکھ روپے تھے۔

نیب وکیل کے مطابق 2018 میں شہباز شریف خاندان کے اثاثے 7 ارب 32 کروڑ پر پہنچ گئے، ان کے 9 بے نامی دار ہیں جن کے نام پر بھی اثاثے بنائے گئے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ شہباز شریف صاحب کہتے ہیں انہیں 12 کروڑ 40 لاکھ روپے منافع آیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کاروبار کون سا تھا، حمزہ اور سلمان شہباز کو جو ٹی ٹیز آتی تھیں وہ یہ اپنی والدہ کو دیتے تھے، ٹی ٹیز کے علاوہ ان کی والدہ کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف فیملی کا ایک طریقہ کار تھا، یہ جس دوران حکومت میں ہوتے تھے اس وقت ٹی ٹیز نہیں آتی تھی، مثال کے طور شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں پبلک آفس کے دوران کوئی ٹی ٹی نہیں آئی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نصرت شہباز کے 29 کروڑ 90 لاکھ روپے کے اثاثہ جات ہیں، ان کے اکاؤنٹ میں 26 ٹی ٹیز بھجوائی گئیں، جن کی مجموعی مالیت 13کروڑ 70 لاکھ روپے ہے، 96 ایچ گھر اور 87 ایچ گھر ٹی ٹی کی رقم سے خریدا گیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ان گھروں کو وزیراعلیٰ کا کیمپ آفس بنا کر ساڑھے پانچ کروڑ روپے تزئین و آرائش پر لگائے گئے، جس پر شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ ان تمام دلائل کا اس سے تعلق نہیں ہے۔

پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ نصرت شہباز نے ٹی ٹیز سے کمپنی بنائی جس کی ڈائریکٹر بنیں، جس پر عدالت نے انہیں کہا کہ یہ تو آپ بے نامی دار کا بتا رہے ہیں شہباز شریف کا بتائیں۔

جس پر نیب وکیل نے کہا کہ سلمان شہباز نے 2003 میں اپنے 19 لاکھ کے شئیر ڈیکلیئر کیے، جو بھی اثاثے بنے 2005 کے بعد بنے جب ٹی ٹیز آنا شروع ہوئیں، پاپڑ والے کے اکاؤنٹ میں 14 لاکھ ڈالر بھیجے گئے، اسی طرح محبوب علی کو 10 لاکھ ڈالر آئے جس کا پاسپورٹ ہی نہیں بنا۔

نیب وکیل نے کہا کہ شہباز شریف کی بیٹی رابعہ عمران کے اکاؤنٹ میں 10 ٹی ٹیز بھیجی گئیں، شہباز شریف کے شریک ملزم طاہر نقوی اشتہاری ہیں ان کے اکاؤنٹ میں بھی لاکھوں کی ٹی ٹیز آئیں، طاہر نقوی ٹی ٹیز کی ساری رقم سلمان شہباز کو دیتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے پورے خاندان نے ٹی ٹیز وصولی کیں، وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کے ملازمین کے اکاؤنٹس میں پیسے آتے رہے جنہیں ہارون یوسف آپریٹ کر رہا تھا اور ان سب کا تعلق کہیں نہ کہیں شہباز شریف سے تھا۔

نیب پراسیکیوٹر کا مزید کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کیس میں شریک ملزمان کی ضمانت ہوئی ہے شہباز شریف تو مرکزی ملزم ہیں، عدالت شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست خارج کرے۔

عدالت نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کی رپورٹ کے مطابق ٹرائل مکمل ہونے میں کم از کم ایک سال لگے گا، ابھی تو ٹرائل کورٹ کے جج بھی مقرر نہیں ہوئے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ ایف بی آر کا کام نہیں کہ وہ ذرائع آمدن کا حساب کتاب کریں، یہ آڈٹ اور انکوائری ایف بی آر کے ذریعے کیوں نہیں کروائی گئی۔

اس موقع پر عدالت کا شہباز شریف کے وکیل سے مکالمہ ہوا، عدالت نے کہا کہ یہ بات ایف بی آر کیوں نہیں پوچھ رہی، جس پر اعظم تارڑ نے کہا کہ ایف بی آر بھی شہباز شریف کے اثاثوں کا آڈٹ کر چکی ہے کچھ نہیں نکلا۔

شہباز شریف کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ نیب نے بدنیتی پر مبنی کیس بنایا ہے جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے، اپوزیشن لیڈر کو 7 ماہ سے جیل میں رکھا ہوا ہے لیکن کوئی ریکوری نہیں ہوئی۔

بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے منی لانڈرنگ ریفرنس میں شہباز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔

ساتھ ہی عدالت نے شہباز شریف کو پچاس لاکھ روپے کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم بھی دیا۔

کیس کا پس منظر

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ شہباز شریف نے 26 مارچ کو منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست مسترد کی تھی جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں احاطہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا تھا۔

قبل ازیں 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں اور کنبے کے دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

بعد ازاں 20 اگست کو لاہور کی احتساب عدالت نے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔

ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔

مزید پڑھیں:منی لانڈرنگ کیس: ضمانت مسترد، شہباز شریف احاطہ عدالت سے گرفتار

اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔

اس میں کہا گیا کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔

مذکورہ ریفرنس میں شہباز شریف ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف سمیت 10 ملزمان پر 11 نومبر کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں