لاہور میں پُرتشدد مظاہرے، ڈی ایس پی سمیت 5 پولیس افسران اغوا

اپ ڈیٹ 19 اپريل 2021
سیکیورٹی اداروں نے صبح 8 بجے کالعدم تنظیم کے لاہور مرکز پر آپریشن کیا تھا— فوٹو: اے ایف پی
سیکیورٹی اداروں نے صبح 8 بجے کالعدم تنظیم کے لاہور مرکز پر آپریشن کیا تھا— فوٹو: اے ایف پی

پنجاب پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنوں نے لاہور کے یتیم خانہ چوک پر پُرتشدد مظاہرے کے دوران ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کو 'بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا' اور ساتھ ہی 4 دیگر عہدیداروں کو بھی یرغمال بنا لیا۔

لاہور کے سی سی پی او کے ترجمان رانا عارف نے بتایا کہ کالعدم تنظیم کے مشتعل کارکنوں نے پولیس پر پیٹرول بم سے حملے بھی کیے۔

لاہور کے یتیم خانہ چوک کے اطراف میں کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاجی کارکنوں سے علاقے کو خالی کرانے کے لیے کیے گئے آپریشن میں 3 افراد جاں بحق جبکہ پولیس اہلکاروں سمیت دیگر متعدد افراد زخمی ہوگئے۔

خیال رہے کہ مذکورہ علاقے میں ٹی ایل پی کا احتجاج 12 پریل سے جاری ہے۔

مزید پڑھیں: 'ٹی ایل پی کو ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کریں گے'

اتوار کی صبح کو کالعدم ٹی ایل پی کارکنان کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن کو رات میں عارضی طور پر روک دیا گیا۔

علاوہ ازیں پنجاب پولیس نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ آج صبح چند عناصر نے نواں کوٹ پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا جہاں پولیس اور رینجرز اہلکار تھانے میں محصور ہو کر رہ گئے۔

بیان میں کہا گیا کہ مظاہرین نے ڈی ایس پی نواں کوٹ کو اغوا کرکے انہیں مرکز پہنچایا۔

پنجاب پولیس کے مطابق شر پسند عناصر ایک آئل ٹینکر بھی مرکز لے گئے جس میں 50 ہزار لیٹر پیٹرول تھا۔

بیان کے مطابق پولیس اور رینجرز نے شرپسند عناصر کو پیچھے دھکیل کر پولیس اسٹیشن کا قبضہ واپس لے لیا۔

پنجاب پولیس نے کہا کہ پولیس نے مسجد یا مدرسے کے خلاف کوئی کارروائی کا منصوبہ نہیں بنایا اور نہ ہی آپریشن کیا۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر کوئی کارروائی کی گئی ہے تو اپنے دفاع اور عوامی املاک کے تحفظ کے لیے تھی'۔

دوسری جانب ایک ویڈیو پیغام میں کالعدم جماعت کے ترجمان شفیق امینی نے الزام لگایا کہ 'آج صبح 8 بجے لاہور مرکز پر فورسز نے اچانک ہم پر حملہ کیا جس میں ہمارے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد جاں بحق ہوگئی ہے جبکہ متعدد زخمی ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک سے بے دخل کرنے اور حکومت کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے نفاذ تک جاں بحق ہونے والوں کی تدفین نہیں کریں گے۔

دریں اثنا پولیس عہدیداروں نے تصدیق کی کہ لاہور کے یتیم خانہ چوک پر آپریشن جاری ہے لیکن انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں لوگوں کو زخمیوں کو اٹھاکر لے جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے تاہم کچھ صارفین نے نشاندہی کی کہ یہ ویڈیوز پرانی ہیں۔

دوسری جانب جائے وقوعہ پر موجود اے ایف پی رپورٹر نے بتایا کہ پولیس نے پتھراؤ کرنے والے مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال کیا جبکہ یتیم خانہ چوک کے قریب واقع کالعدم ٹی ایل پی ہیڈکوارٹرز کو جانے والے تمام راستے بھی بند کردیے گئے ہیں۔

ٹی ایل پی نے پنجاب پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی ویڈیو بھی شیئر کی جسے مبینہ طور پر کالعدم تنظیم کے کارکنوں نے پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

زخمی پولیس اہلکار نے بتایا کہ علاقے کو کارکنوں سے صاف کرنے کے لیے ایک آپریشن کیا جارہا تھا جب انہیں 'مشتعل' ہجوم نے 'پکڑ لیا'۔

یہ بھی پڑھیں: ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے پر 'ٹی ایل پی' کے خلاف کارروائی کی، وزیر اعظم

سی سی پی او لاہور کے ترجمان رانا عارف نے ڈان کو بتایا کہ ٹی ایل پی کے کارکنوں نے ایک ڈی ایس پی عمر فاروق بلوچ پر 'بے دردی سے تشدد کیا' اور اس کے ساتھ 4 دیگر عہدیداروں کو یرغمال بنا لیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مظاہرین نے پولیس پر پیٹرول بموں سے بھی حملہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 11 پولیس اہلکار ٹی ایل پی کارکنوں کے 'وحشیانہ تشدد' سے زخمی ہوئے ہیں اور وہ شہر کے مختلف ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ واقعے میں 3 افراد ہلاک اور متعدد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں اور ساتھ ہی پولیس افسر نے بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی اپیل کی۔

پولیس کی طرف سے کوئی آپریشن شروع نہیں کیا گیا، فردوس عاشق اعوان

دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے مختلف ٹوئٹس میں کہا کہ 'آج (18 اپریل کی) صبح پیٹرول بموں اور تیزاب کی بوتلوں سے لیس پُرتشدد جتھے، نواں کوٹ پولیس تھانے پر حملہ آور ہوئے، جہاں رینجرز اور پولیس اہلکار محبوس ہوگئے اور تقریباً 6 پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے'۔

انہوں نے کہا کہ 'متشدد جتھے ڈی ایس پی نواں کوٹ سمیت 12 پولیس والوں کو اسلحے کے زور پر اغوا کرکے اپنے مرکز میں لے گئے، جہاں حملے کے لیے 50 ہزار لیٹر کا آئل ٹینکر بھی رکھا گیا ہے'۔

فردوس عاشق اعوان نے لکھا کہ پولیس کی طرف سے کوئی آپریشن پلان یا شروع نہیں کیا گیا اور جوابی کارروائی صرف اپنے دفاع اور مغوی پولیس اہلکاروں کو بچانے کی لیے کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے ان جتھوں کے ہاتھوں 6 پولیس اہلکار شہید اور 700 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

اسلام آباد میں سخت سیکیورٹی اقدامات

دریں اثنا ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد، افضل احمد نے کہا کہ 'شہر بھر میں سیکیورٹی سخت کردی گئی ہے' اور شہر کے داخلی/خارجی مقامات سمیت دیگر اہم علاقوں میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔

انہوں نےٹوئٹ میں کہا کہ 'شہر میں امن و امان کی فضا برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے'۔

یاد رہے کہ وزارت داخلہ نے 15 اپریل کو تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیا تھا بعدازاں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے جماعت کی میڈیا کوریج پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔

پرتشدد مظاہرے

اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے خلاف ریاست کی عملداری کو چیلنج کرنے پر انسداد دہشت گردی قانون کے تحت کارروائی کی۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی سربراہ سعد رضوی، اعلیٰ قیادت کیخلاف دہشت گردی اور قتل کا مقدمہ

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ 'میں اندرون اور بیرون ملک لوگوں کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت اس وقت کارروائی کی جب انہوں نے ریاست کی عملداری کو چیلنج کیا اور پرتشدد راستہ اختیار کرتے ہوئے عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے کیے'۔

تبصرے (0) بند ہیں