کراچی کے 50 فیصد کیسز میں کووڈ کی برطانوی قسم پائی گئی، صوبائی وزیر صحت

اپ ڈیٹ 22 اپريل 2021
ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیا—فائل/فوٹو: ڈان
ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیا—فائل/فوٹو: ڈان

سندھ کی صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے شہریوں کو احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیق سے تصدیق ہوئی ہے کہ کراچی میں 50 فیصد کیسز میں برطانوی ویریئنٹ موجود ہے۔

صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ 'یوکے کی کووڈ کی قسم بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور یہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پہلے ہی پھیل چکی ہے'۔

مزید پڑھیں: کراچی میں کووڈ 19 کی متعدد اقسام کی موجودگی کا انکشاف

انہوں نے کہا کہ 'اس کی وجہ سے وہاں اموات بھی ہو رہی ہیں اور بہت سارے لوگ متاثر ہوچکے ہیں جبکہ کراچی میں بھی یہ ویریئنٹ آچکا ہے'۔

ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا کہنا تھا کہ 'ہماری تحقیق کے مطابق ٹیسٹ کے نمونوں میں 50 فیصد یوکے کا ویریئنٹ ملا ہے، اس لیے ہمیں بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'رمضان کا مہینہ ہے، عیدالفطر بھی آنے والی ہے اور رمضان میں افطار اور سحری کے وقت عید کی شاپنگ کے لیے بہت سارے لوگ بازاروں میں نکلتے ہیں، جس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے'۔

صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ 'ایس او پیز پر عمل کریں، غیر ضروری باہر نہ نکلیں، ہجوم سے دور رہیں، ہاتھ صابن اور پانی سے متواتر دھوتے رہیں، ماسک پہننا ضروری ہے، سماجی دوری برقرار رکھیں، اس طرح آپ اپنے آپ کو اپنے رشتہ داروں اور کمیونٹی کے لوگوں کو بھی بچا سکتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمارے ویکسینینش سینٹرز کھلے ہوئے ہیں، روزہ داروں کے لیے افطار کے بعد بھی کھلے ہوتے ہیں جہاں 50 سال سے بڑی عمر کے افراد ویکسینیشن کراسکتے ہیں اور اس سے آپ خود کو کووڈ سے محفوظ رکھ سکتے ہیں'۔

کووڈ وائرس کی مختلف اقسام

قبل ازیں حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف ہوا تھا کہ پاکستان میں کووڈ 19 کی موجودہ تیسری لہر میں برطانیہ، جنوبی افریقہ اور برازیل وائرس کی مختلف اقسام کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 3 ہزار 501 مثبت نمونوں کے تجزیے پر مشتمل تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ کراچی میں دسمبر 2020 سے فروری 2021 تک کی رپورٹ کیے گئے کووڈ 19 کے کیسز میں سے 54 فیصد انفیکشنز کی وجہ نئی اقسام ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں وائرس کی تیسری لہر طبی ورکرز کے لیے زیادہ مہلک

تحقیق کے مطابق ستمبر سے نومبر 2020 کے مہینوں میں مثبت کیسز کا تناسب 1.538 فیصد تھا جو دسمبر 2020 سے فروری 2021 میں 7.6 فیصد تک پہنچ گیا۔

اس تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ کیسز میں یہ ڈرامائی اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کیسز ان ممالک سے درآمد ہوئے جہاں وائرس نومبر 2020 کے دوران یا اس سے قبل پھیل رہا تھا۔

سینئر پیتھالوجسٹ اور انفیکشن کنٹرول سوسائٹی آف پاکستان کے صدر ڈاکٹر رفیق خانانی کا کہنا تھا کہ 'یہ تحقیق کی سب سے تشویشناک بات ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایئرپورٹس پر ہمارا کووڈ 19 سے متعلق نگرانی اور اسکریننگ کا نظام خامیوں سے بھرا ہے اور در حقیقت ایسا لگتا ہے کہ مریضوں کا سراغ لگانے کے لیے کسی قسم کی نگرانی نہیں کی جارہی ہے'۔

ڈاکٹر رفیق خانانی نے یہ تحقیق ساتھی ڈاکٹر محمد حنیف اور ڈاکٹر عدنان دینار کے ساتھ کی جو دونوں مولیاکیولر بائیولوجسٹس ہیں۔

اس کے علاوہ تحقیق کو بین الاقوامی جریدے میں اشاعت کے لیے قبول بھی کرلیا گیا ہے۔

ڈاکٹر رفیق خانانی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'بغیر کسی نگرانی کے بین الاقوامی پروازوں اور کسی بھی ملک سے پاکستان آنے پر قرنطینہ اقدامات نہ ہونے سے پاکستان میں مختلف اقسام کے پھیلاؤ میں تیزی آئی ہے'۔

تجزیے میں 944 نمونوں میں یوکے اور 934 میں برازیل اور متعدد میں جنوبی افریقہ کی اقسام پائی گئیں جبکہ پرانے وائرل انفیکشن کے 1623 کیسز سامنے آئے تھے۔

کراچی یونیورسٹی کے نیشنل سینٹر برائے وائرولوجی کے ماہرین نے بھی اس سہولت میں تجربہ کیے گئے نمونوں میں جنوبی افریقہ کی اقسام کا پتا لگایا ہے۔

اس مرکز میں تجربہ کیے گئے تقریبا 50 فیصد مثبت کیسز میں برطانیہ کی قسم اور 25 فیصد میں جنوبی افریقہ کی قسم پائی گئی تھی۔

کراچی یونیورسٹی کے انٹرنیشنل سینٹر برائے کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کے ڈائریکٹر پروفیسر محمد اقبال چودھری نے بتایا تھا کہ وائرس کے تیزی سے ابھرتے ہوئے نئے تناؤ کی بروقت شناخت اور ان پر قابو پانے کے لیے وائرس کی جینومک نگرانی کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں