اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کو متنبہ کیا ہے کہ اگر 5 مئی کو ان کی طرف سے کوئی عدالت میں پیش نہیں ہوا تو وہ اپنے مؤقف دینے کے حق سے محروم ہوجائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایچ سی کے جسٹس میانگ الحسن اورنگزیب نے ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن اور حبیب رفیق لمیٹڈ کے نامکمل مشترکہ منصوبے- ڈی ایچ اے ویلی کے الاٹیز کی درخواست کی سماعت کے دوران یہ حکم جاری کیا۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ ڈی ایچ اے ایکٹ کی کچھ شقیں غیرآئینی قرار

عدالت نے اتھارٹی کی انتظامیہ کو 15 دن میں جواب داخل کرنے کا حکم دیا۔

منصوبے پر 16 اگست 2008 کو دستخط ہوئے تھے اور دستخط کرنے والے اس وقت کے ڈی ایچ اے ایڈمنسٹریٹر (ر) بریگیڈ جاوید اقبال، بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض اور حبیب رفیق لمیٹڈ کے زاہد رفیق تھے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ تقریباً ڈیڑھ برس گزر چکا اور جواب دہندہ (ڈی ایچ اے) نے ابھی تک تحریری جواب داخل نہیں کرایا۔

درخواست گزاروں نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے اپنے پلاٹس کے تمام واجبات ادا کردیے اور ایک دہائی گزر جانے کے باوجود ہاؤسنگ سوسائٹی نے انہیں ان کے پلاٹوں کا قبضہ نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت عظمیٰ نے کوئٹہ ڈی ایچ اے سے متعلق بلوچستان ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا

درخواست میں کہا گیا کہ کچھ ماہ قبل ڈی ایچ اے ویلی انتظامیہ نے کچھ پلاٹوں کے لیے بیلٹنگ کی تھی اور الاٹیز کو ترقیاتی چارجز کے تحت 3 لاکھ 50 سے 4 لاکھ 50 ہزار روپے تک جمع کرنے کو کہا تھا۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ ترقیاتی چارجز کو غیرقانونی قرار دے اور الاٹ کرنے کے لیے ہدایت جاری کریں اور پلاٹوں کو الاٹیز کے حوالے کریں۔

ڈی ایچ اے ویلی پروجیکٹ ان 50 میگا اراضی اسکینڈل میں سے ایک ہے جو نیب نے 2013 میں سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا۔

قومی احتساب بیورو نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ زمین کی فروخت، ترقی اور خریداری میں مبینہ طور پر غبن' کی تحقیقات کررہا ہے۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن تصفیہ فنڈ کہاں استعمال ہوگا؟ سپریم کورٹ نے کمیشن بنادیا

عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی نیب کی رپورٹ کے مطابق انکوائری کا اختیار 3 جولائی 2010 کو دیا گیا تھا اور اسے 15 اکتوبر 2015 کو مکمل ہونا تھا۔

بیورو کے مطابق اس اسکیڈل میں مجموعی طورپر 13 لاکھ 31 ہزار کنال اراضی شامل ہے۔

ڈی ایچ اے ویلی منصوبہ اگست 2008 میں شروع کیا گیا تھا اور اسے 2011 تک مکمل ہونا تھا۔

تاہم ڈیولپر زمین کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔

ڈی ایچ اے نے شہریوں اور فوجیوں سے درخواستیں طلب کیں جن میں جونیئر کمیشنڈ افسران، نان کمیشنڈ افسران نیز شہدا کے ورثا شامل تھے۔

منصوبے کے مطابق بحریہ ٹاؤن اور حبیب رفیق اسلام آباد میں ڈی ایچ اے ایکسٹینشن کے فیز ٹو کے قریب ڈی ایچ اے ویلی کے لیے 40 ہزار کنال سے زائد کے حصول اور ترقی کے ذمہ دار تھے۔

2008 میں اس منصوبے کے آغاز کے بعد تقریباً ایک لاکھ 10 ہزار شہریوں اور 41 ہزار دفاعی اہلکاروں نے اس اسکیم میں درخواست دی۔

درخواست کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ڈی ایچ اے ویلی کے ممبروں نے باقاعدہ وقفوں کے ساتھ قسطوں کی ادائیگی شروع کردی۔

12 ویں قسط کے بعد اتھارٹی، پلاٹوں کا قبضہ ممبروں کے حوالے کرنے کا پابند تھا۔

تاہم ستمبر 2011 کو جب ممبران اپنی آخری قسط ادا کرنے والے تھے ڈی ایچ اے نے اشتہار جاری کیا اور اگلے احکامات تک آخری قسط جمع کرنے سے روک دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں