مارچ 2020 میں امریکی علاقے ماؤنٹ ورنن میں 61 لوگ موسیقی کی مشق کے لیے اکٹھے ہوئے اور سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔

ڈھائی گھنٹے وہ اکٹھے رہے اور پھر 3 دن بعد ان میں سے ایک میں کووڈ 19 کی تصدیق ہوئی اور آنے والے ہفتوں میں اس اجتماع میں موجود 53 افراد اس بیماری کا شکار ہوئے، 3 ہسپتال پہنچ گئے اور 2 چل بسے۔

یہ واقعہ 12 مئی 2020 کو یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے رپورٹ کیا تھا۔

ایسے لاتعداد واقعات بحری جہاں، نرسنگ ہومز، گوشت کے پلانٹس، اسکائی ریزورٹس، گرجا گھروں، ریسٹورنٹس، ہسپتالوں اور جیلوں میں بھی دیکھنے میں آئے اور اکثر اوقات صرف ایک فرد ہی درجنوں افراد کو بیمار کردیتا ہے۔

دیگر وبائی امراض بھی اس طرح پھیلتے ہیں مگر نیا کورونا وائرس لگتا ہے کہ ایک جگہ اکٹھے افراد کو زیادہ متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

مگر ایک مریض کتنے افراد کو بیمار کرسکتا ہے، اس بارے میں اب تک درست وضاحت نہیں ہوسکی تھی بس خیال کیا جاتا ہے کہ اگر سماجی دوری کا خیال نہ رکھا جائے تو اس بیماری کا شکار ایک فرد مزید 3 لوگوں کو بیمار کرسکتا ہے یعنی اس کا ری پروڈکشن نمبر (آر) 3 ہے۔

تاہم اب ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 سے متاثر ایک شخص 30 دنوں میں مزید سیکڑوں افراد کو اس بیماری کا شکار اس وقت کرسکتا ہے جب احتیاطی تدابیر جیسے سماجی دوری پر عملدرآمد نہ ہوسکے۔

یہ دعویٰ بھارت میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ جسمانی دوری کے اقدامات پر عمل نہ کیا جائے تو ایک مریض محض 4 ہفتوں میں 406 افراد میں اس بیماری کو منتقل کرسکتا ہے۔

تحقیق میں کہا گیا کہ لوگوں کو بلاضرورت گھر سے باہر جانے سے گریز کرنا چاہیے اور باہر جانے پر فیس ماسک کا استعمال لازمی کرنا چاہیے۔

محققین کے مطابق یہ بہت ضروری ہے کہ فیس ماسک کا استعمال کیا جائے اور لوگوں کو موجودہ حالات میں اپنے گھروں میں مدعو نہ کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ سماجی دوری، فیس ماسکس اور ہاتھوں کی صفائی سے بیماری کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر جسمانی دوری کی ہدایات پر کسی حد تک یعنی 50 فیصد بھی عمل کیا جائے تو ایک متاثرہ فرد 406 کی بجائے صرف 15 افراد میں ہی اس بیماری کو منتقل کرسکے گا

اسی طرح 75 فیصد عملدرآمد پر ایک مریض محض 2 سے 3 افراد کو ہی اس بیماری کا شکار بناسکیں گے، تو ہر ایک کو اس پہلو کو سمجھنا چاہیے تاکہ وبا کی روک تھام کی جاسکے۔

محققین نے سماجی دوری کے لیے سماجی ویکسین کی اصطلاح استعمال کی۔

اس سے قبل اکتوبر 2020 میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد کی بہت کم تعداد اسے آگے پھیلاتی ہے جبکہ بچے اور نوجوان اس بیماری کے پھیلاؤ میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔

امریکا کی جونز ہوپکنز یونیورسٹی، کیلیفورنیا یونیورسٹی اور پرنسٹن انوائرمنٹ انسٹیٹوٹ (پی ای آئی) کی اس تحقیق میں بھارتی ریاست تامل ناڈو اور آندھرا پردیش کے 5 لاکھ 75 ہزار سے زائد کورونا وائرس کے شکار افراد میں آگے دیگر افراد میں اس کے پھیلاؤ اور اموات کی شرح کا جائزہ لیا گیا تھا۔

ان مریضوں نے آگے مزید 84 ہزار 965 افراد میں کورونا وائرس کو منتقل کیا۔

محققین نے بتایا کہ 71 فیصد متاثرہ افراد نے اپنے رابطے میں آنے والے کسی بھی فرد میں بیماری کو منتقل نہیں کیا، مگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ چند افراد کی جانب سے متعدد افراد کو اس کا شکار بنانا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ محض 8 فیصد متاثرہ افراد 60 فیصد نئے کیسز کا باعث بنے۔

مجموعی طور پر کووڈ 19 کے 10 میں سے 7 مریض کسی نئے کیس کا باعث نہیں بنتے مگر باقی 3 مریض متعدد کیسز کا اضافہ کرسکتے ہیں۔

تحقیق میں کہا گیا کہ کسی ایک فرد یا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے موزوں جگہ یعنی ناقص ہوا کی گردش والی چاردیواری میں بڑی تعداد میں نئے کیسز سامنے آسکتے ہیں۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کسی فرد میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا امکان برادری کی سطح پر 2.4 فیصد جبکہ گھروں کے اندر 9 فیصد ہوتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں