اسلام آباد: انسداد عصمت دری (انوسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020 کے تحت ریپ کے مقدمات میں تیز ٹرائلز کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے گزشتہ برس دسمبر میں انسداد عصمت دری کا قانون پیش کیا تھا۔

مزید پڑھیں: حکومت کا ریپ کیسز کے تیز ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کا منصوبہ

وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ نے نومبر 2020 میں قانونی اقدام کی منظوری دی اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 15 دسمبر کو اس قانون پر دستخط کیے تھے۔

خصوصی عدالتوں میں ریپ کے مقدمات کی سماعت کے لیے تجویز کیا گیا تھا کہ 4 ماہ کے اندر فیصلہ سنایا جائے گا۔

ریپ کے واقعات کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کے علاوہ آرڈیننس کی دفعہ 3 میں یہ بھی کہا گیا کہ 'صدر، چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے ملک بھر میں زیادہ سے زیادہ خصوصی عدالتیں قائم کریں گے'۔

اس میں مزید کہا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے صدر سیشن جج یا ایڈیشنل سیشن جج کو خصوصی عدالت کا جج مقرر کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ریپ کیسز کے مجرمان کے خلاف مفصل قانون بنا لیا، شبلی فراز

مزید یہ کہ 'صدر مملکت، چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے پورے ملک میں سیشن ججز یا ایڈیشنل سیشن ججز کی متعدد عدالتوں کو خصوصی عدالتوں کے عہدے پر نامزد کرسکتے ہیں۔

قانون ججز کو 'وہی اختیارات اور دائرہ اختیار فراہم کرتا ہے جو عدالت کے سیشن کی طرح ہوتے ہیں جو ضابطہ (مجرمانہ طریقہ کار) کے تحت فراہم کردہ ہیں'۔

قانون کے مطابق خصوصی عدالت کے جج کو تین (3) سال کی مدت کے لیے ایسے شرائط و ضوابط پر مقرر کیا جائے گا جو صدر کے ذریعے طے کیے جاسکتے ہیں اور اگر انہیں بدانتظامی کا مرتکب پایا گیا تو خصوصی عدالت کے جج کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی انہیں ہٹایا جا سکے گا۔

اگرچہ وزارت قانون نے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں جن میں انسداد عصمت دری کے بحران کا سیل بننا اور ہسپتالوں میں متاثرہ افراد کے لیے بستر مختص کرنا شامل ہیں تاہم خصوصی عدالتوں کا قیام اور ججز کو ریپ کے مقدمات چلانے کے لیے بااختیار بنانے کا کام ابھی تک نہیں کیا جاسکا۔

مزید پڑھیں: کابینہ کمیٹی نے سخت سزاؤں کیلئے انسداد ریپ آرڈیننس کی منظوری دے دی

وزارت قانون کے ذرائع نے بتایا کہ صدر عارف علوی اور چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کے مابین بنیادی مشاورت مکمل ہوچکی ہے۔

پاکستان کے لا اینڈ جسٹس کمیشن نے چاروں صوبائی ہائیکورٹس اور اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) کو ضروری معلومات بھی فراہم کی ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ اعلیٰ عدالتوں نے گزشتہ ہفتے اس تجویز پر رضامندی ظاہر کی اور ضلعی اور سیشن ججز اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی نشاندہی کی تھی کہ انہیں ریپ کے مقدمات چلانے کے لیے جج نامزد کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں