کووڈ 19 نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے والا مرض ہے بلکہ یہ متعدد مریضوں میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 ایسے افراد کو ذیابیطس کا شکار بنارہا ہے جو اس سے پہلے اس بیماری کے شکار نہیں تھے۔

محقق زید العلی نے بتایا 'اس بات پر یقین کرنا بہت مشکل تھا کہ کووڈ واقعی لوگوں کو ذیابیطس کا شکار بھی بناسکتا ہے'۔

یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے لوگوں میں ذیابیطس کا عارضہ کیوں ہوسکتا ہے مگر کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سارس کوو 2 وائرس ممکنہ طور لبلبے کو نقصان پہنچاتا ہے۔

لبلبہ ایک ہارمون انسولین کو بناتا ہے جو خون میں موجود شکر کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے اور اس میں مسائل سے ذیابیطس کا مرض ہوسکتا ہے۔

خیال رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 46 کروڑ سے زیادہ ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ کووڈ کی اس غیرمعمولی پیچیدگی سے اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔

ذیابیطس متعدد جان لیوا پیچیدگیوں بشمول فالج اور گردوں کے امراض کا خطرہ بڑھانے والا مرض ہے۔

اس تحقیق کے دوران ماہرین نے محکمہ ویٹرنز افیئرز کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس سے شواہد اکٹھے کیے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں آئندہ 6 ماہ کے دوران ذیابیطس کی تشخیص کا امکان 39 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

تحقیق کے مطاب کووڈ سے معمولی بیمار رہنے والے افراد جن کو ہسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، ان میں سے ہر ایک ہزار میں سے 6.5 میں ذیابیطس کا خطرہ ہوتا ہے۔

اسی طرح ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے ہر ایک ہزار میں سے 37 مریض ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں اور یہ شرح ان مریضوں میں زیادہ ہوسکتی ہے جن کو آئی سی یو میں زیرعلاج رہنا پڑا ہو۔

کووڈ کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ شرح معمولی نہیں کیونکہ دنیا بھر میں کووڈ کے مریضوں کی تعداد 15 کروڑ سے زیادہ ہے۔

طبی جریدے نیچر میں اپریل میں اس تحقیق کے نتائج شائع ہوئے تھے۔

3 ہفتے بعد برطانیہ میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے 50 ہزار کے قریب مریضوں پر ہونے والی ایک اور تحقیق کے نتائج جاری ہوئے جس میں دریافت کیا گیا کہ ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 20 ہفتے بعد مریضوں میں ذیابیطس کی تشخیص کا امکان 50 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

کنگز کالج لندن کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم دو وباؤں کے ٹکراؤ کے خطرے کو دیکھ رہے ہیں۔

کنگز کالج لندن نے کووڈ سے متعلق ذیابیطس کیسز کے حوالے سے ایک عالمی رجسٹری کو تشکیل دیا ہے۔

محققین کا خیال ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی ممکنہ وجہ لبلے کے انسولین بنانے والے خلیات کا تباہ ہونا ہے جو یا تو کورونا وائرس کا اثر ہے یا کووڈ کے خلاف جسمانی ردعمل اس کا باعث بنتا ہے۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ کووڈ کے علاج کے لیے اسٹرائیڈز کے استعمال سے بلڈ شوگر کی سطح بڑھتی ہے یا ذیابیطس کے ایسے کیس جن کی پہلے تشخیص نہیں ہوسکی تھی، ان میں یہ مرض ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔

دنیا بھر میں 500 ڈاکٹروں نے عالمی ڈائیبیٹس رجسٹری کے ساتھ ڈیٹا شیئر کرنے پر اتفاق کیا اور ان کی جانب سے مریضوں میں خطرہ بڑھانے والے عناصر، لیبارٹری نتائج، کلینیکل فیچرز، علاج اور دیگر تفصیلات کو شیئر کیا جائے گا۔

اس کا مققصد ذیابیطس کے تشکیل پانے کی وجہ کو شناخت کرنا ہے۔

اب تک اس رجسٹری میں 350 کے قریب کیسز کی تفصیلات درج کی گئی ہیں۔

ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ لوگ ہمیں اس بارے میں بتاتے ہیں، جیسے ایک شخص نے بتایا کہ میرے اپنے بیٹے میں ذیابیطس کی تشخیص ہوئی ہے، وہ 8 سال کا ہے اور حال ہی میں کووڈ کو شکست دینے میں کامیاب ہوا ہے، کیا یہ کووڈ کی وجہ سے ہوا؟

ابھی یہ واضح طور پر کہنا مشکل ہے کہ کووڈ ہی ذیابیطس کا باعث بنتا ہے، تاہم اس حوالے سے ڈیٹا سے کورونا کی وبا کے اس اثر کو جانچنے میں مدد مل سکے گی۔

لاس اینجلس میں ڈاکٹروں نے ایک پریشان کن رجحان کی نشاندہی کی ہے جن میں بچوں میں ذیابیطس ٹائپ 2 کے نئے کیسز کی تشخیص شامل ہے۔

ذیابیطس کی یہ قسم موٹاپے اور سست طرز زندگی کے نتیجے میں لاحق ہوتی ہے اور عام طور پر بالغ بلکہ درمیانی عمر کے افراد میں ہی نظر آتی ہے۔

ان ڈاکٹروں نے دریافت کیا کہ ذیابیطس ٹائپ ٹو سے متاثر ہر 5 میں سے ایک بچے کو ہسپتال میں داخل ہوکر ذیابیطس کا علاج کرانے کی ضرورت پڑی۔

2019 میں یہ شرح محض 3 فیصد تھی، جبکہ 2020 میں ان مریض بوں میں کورونا کی ٹیسٹنگ منظم انداز سے نہیں ہوئی، مگر جن کے ٹیسٹ ہوئے ان میں سے ایک تہائی میں وائرس کی تصدیق ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں