'انسانی حقوق کونسل کی نصف رکن ریاستیں رضاکاروں سے انتقامی کارروائیوں میں ملوث ہیں'

اپ ڈیٹ 06 مئ 2021
عالمی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے والے افراد کے خلاف سب سے زیادہ انتقامی کارروائیاں بحرین میں ہوئیں، آئی ایس ایچ آر - فائل فوٹو:رائٹرز
عالمی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے والے افراد کے خلاف سب سے زیادہ انتقامی کارروائیاں بحرین میں ہوئیں، آئی ایس ایچ آر - فائل فوٹو:رائٹرز

جینیوا: ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں خدمات انجام دینے والی تقریباً نصف ریاستیں رضاکاروں، وکلا اور عالمی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے والے دیگر افراد کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل سروس فار ہیومن رائٹس (آئی ایس ایچ آر) کی ایک تازہ رپورٹ میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران سیکڑوں کیسز کا تجزیہ کیا گیا جہاں ایسے افراد جنہوں نے اقوام متحدہ کے اداروں کو حقوق کی پامالیوں کی تحقیقات کرنے اور انہیں اجاگر کرنے میں مدد کی تھی، کو ریاستوں کی جانب سے طرح طرح کی دھمکیوں اور انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔

رواں ہفتے جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ رضاکاروں، وکلا اور سول سوسائٹی کے دیگر افراد جو اقوام متحدہ کے حقوق پر مبنی مختلف سیشنز اور تحقیقات میں مشغول ہیں، کو دھمکیوں، ہتک عزت، مجرمانہ تحقیقات، سفری پابندیوں، نظربندی، جسمانی حملوں سمیت تشدد کے وسیع پیمانے پر انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

آئی ایس ایچ آر کے شریک ڈائریکٹر میڈیلین سنکلیئر نے ایک بیان میں کہا کہ 'انسانی حقوق کے محافظ بین الاقوامی انسانی حقوق کے نظام کا لازمی حصہ ہیں'۔

مزید پڑھیں: بھارت، پاکستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں، امریکی رپورٹ

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر وہ اپنے ممالک میں پائی جانے والی خلاف ورزیوں اور بدسلوکیوں کے بارے میں معلومات کو محفوظ طریقے سے شیئر نہیں کرسکیں تو پورا نظام مجروح ہوگا'۔

آئی ایس ایچ آر انسانی حقوق کے محافظوں کی مدد پر مرکوز انسانی حقوق کی ایک معروف تنظیم ہے۔

رپورٹ، جس نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی 2010 سے 2020 کے درمیان اس طرح کی انتقامی کارروائیوں کے بارے میں سالانہ رپورٹس میں دیے گئے 709 کیسز کا جائزہ لیا گیا، میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ متعدد ممالک تواتر کے ساتھ یہ جرم کرتے ہیں۔

جن میں بحرین سرِفہرست ہے جہاں اس دوران 64 کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں، اس کے بعد وینزویلا، ویتنام اور مصر اس فہرست میں شامل ہیں۔

بحرین اور وینزویلا اس وقت اقوام متحدہ کی 47 رکنی انسانی حقوق کونسل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

'ناقابل قبول طرز عمل’

میڈیلین سنکلیئر نے کہا کہ 'اقوام متحدہ کے سب سے ممتاز انسانی حقوق کے ادارے کے ممبران کے لیے یہ ناقابل قبول طرز عمل ہے'۔

اس رپورٹ میں اہم تجویز کونسل کے لیے اُمیدواروں کے بارے میں غور و فکر میں تبدیلی تھی۔

اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ 'جب ایچ آر سی کے ممبران کا انتخاب کیا جاتا ہے تو ووٹنگ کرنے والے ممالک کو غور کرنا چاہیے کہ آیا امیدوار ریاست کا کوئی دھمکیوں اور انتقامی کارروائیوں کا کوئی ریکارڈ تو نہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: یورپی یونین سے بھارت میں انسانی حقوق کے معاملات اٹھانے پر زور

انسانی حقوق کے لیے بین الاقوامی سروس نے خبردار کیا ہے کہ ممکنہ طور پر انتقامی کارروائیوں کی تعداد کو کم سے کم رپورٹ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زیادہ تر انتقامی کارروائیوں میں جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاسوں میں حصہ لینے والے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی مختلف حقوق کی کمیٹیوں کے جائزوں میں حصہ لینے والے اور اقوام متحدہ کے حقوق سے متعلق تفتیش کاروں سے بات کرنے والوں کو بھی اکثر نشانہ بنایا گیا جبکہ چند انتقامی کارروائیوں میں ایسے افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا جو اقوام متحدہ کے امن آپریشنز میں شامل تھے اور جنرل اسمبلی اور سیکیورٹی کونسل کے ساتھ تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں