شرمین عبید چنائے کی خواتین صحافیوں پر بنی دستاویزی فلم ریلیز

اپ ڈیٹ 07 مئ 2021
دستاویزی فلم میں خیبرپختونخوا کی پہلی بیورو چیف کو بھی دکھایا گیا ہے—اسکرین شاٹ
دستاویزی فلم میں خیبرپختونخوا کی پہلی بیورو چیف کو بھی دکھایا گیا ہے—اسکرین شاٹ

آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ساز شرمین عبید چنائے نے میڈیا انڈسٹری میں خواتین صحافیوں کی جانب سے ہراسانی کا سامنے کرنے اور ان کی مشکلات پر بنائی گئی دستاویزی فلم جاری کردی۔

شرمین عبید چنائے (ایس او سی) فلمز کی جانب سے بنائی گئی تقریبا 10 منٹ دورانیے کے دستاویزی فلم میں ملک کی تین ایسی خاتون صحافیوں کو دکھایا گیا ہے، جنہیں آن لائن ہراسانی سمیت جسمانی طور پر بھی ہراساں کیا گیا۔

پاکستانی میڈیا میں خواتین کی نمائندگی کے نام سے بنائی گئی دستاویزی فلم میں عالمی صحافتی تنظیم کے اعداد و شمار دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ملک میں ہر دو میں سے ایک خاتون کو کام کی جگہ پر زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دستاویزی فلم میں ملک کی تین نامور خواتین صحافیوں کو دکھایا گیا ہے، جنہوں نے بتایا کہ انہیں کس طرح کی ہراسانی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دستاویزی فلم میں صحافت کو 22 سال دینے والی خیبر پختونخوا کی پہلی خاتون بیورو چیف فرزانہ علی کو بھی دکھایا گیا ہے، جنہوں نے بتایا کہ کس طرح انہیں جنس کی بنیاد پر تضحیک اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

دستاویزی فلم میں تنزیلہ مظہر بھی دکھائی دیں—اسکرین شاٹ
دستاویزی فلم میں تنزیلہ مظہر بھی دکھائی دیں—اسکرین شاٹ

فرزانہ علی نے بتایا کہ جب وہ رپورٹر تھیں، تب انہیں زیادہ ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا تاہم بیورو چیف بننے کے بعد مذکورہ عمل میں کمی دیکھی گئی لیکن پھر بھی انہیں غلط سمجھا جانے لگا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ بیورو چیف بنیں تو بعض مرد صحافیوں نے دوسری خواتین کو بتایا کہ کس طرح وہ غلط کام کرکے اس مقام پر پہنچیں ہیں اور پھر ان مرد صحافیوں نے دوسری خواتین کو پھنساتے ہوئے کہا کہ وہ بھی انہیں فلاں فلاں طریقے سے اس مقام تک پہنچائیں گے۔

مختصر دستاویزی فلم میں اپنے مسائل پر بات کرتے ہوئے فرزانہ علی جذباتی بھی ہوگئیں۔

دستاویزی فلم میں اینکر و صحافی تنزیلہ مظہر کی کہانی کو بھی دکھایا گیا ہے اور انہوں نے پہلی مرتبہ کھل کر بتایا کہ کس طرح انہیں پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) میں ان کے باس نے جسمانی ہراسانی کا نشانہ بنایا۔

تنزیلہ مظہر کے مطابق ان کے باس نے انہیں 2009 میں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا اور انہوں نے چند سال خاموش رہنے کے بعد 2016 میں ان کے خلاف باضابطہ شکایت درج کروائی تو معاملہ سامنے آیا۔

تنزیلہ مظہر کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی انتظامیہ نے ان کے کیس کی تفتیش کے لیے جو کمیٹی بنائی، اس میں شامل واحد خاتون رکن نے انہیں طعنہ دیا کہ جب انہیں ہراسانی کا نشانہ بنایا جا رہا تھا تب وہ کام کیوں نہیں چھوڑ کر گئیں۔

دستاویزی فلم میں بی بی سی کی فرحت جاوید نے بھی خواتین صحافیوں کو مشکلات کا ذکر کیا—اسکرین شاٹ
دستاویزی فلم میں بی بی سی کی فرحت جاوید نے بھی خواتین صحافیوں کو مشکلات کا ذکر کیا—اسکرین شاٹ

اینکر و صحافی نے بتایا کہ مذکورہ واقعے کے بعد جہاں انہیں بدنامی کا سامنا کرنا پڑا، وہیں انہیں نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔

دستاویزی فلم میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی صحافی فرحت جاوید کی کہانی کو بھی دکھایا گیا، جنہوں نے آن لائن ہراسانی کی شکایت کی۔

فرحت جاوید نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا جب کوئی مرد صحافی خبر پڑھتا ہے تو اسے کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن جب کوئی خاتون خبر پڑھ رہی ہوتی ہے تو اسے غیر اسلامی کپڑوں کے طعنے دینے سمیت امریکی و برطانوی ایجنٹ کے طعنے بھی دیے جاتے ہیں۔

انہوں نے آن لائن ہراسانی کا نشانہ بنائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف انہیں بلکہ ان کے والد کو بھی گالیاں دی گئیں جب کہ ان کے لیے انتہائی نامناسب اور فحش الفاظ استعمال کیے گئے۔

شرمین عبید چنائے فلمز کی جانب سے مذکورہ دستاویزی فلم کو حال ہی میں فیس بک پر ریلیز کیا گیا تاہم ابتدائی طور پر مذکورہ فلم کو رواں برس مارچ میں یوٹیوب پر جاری کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں