لاہور: قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی منی لانڈرنگ ریفرنس میں گرفتاری کے بعد ضمانت کی درخواست پر اپنے تفصیلی فیصلے میں لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ نے مشاہدہ کیا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پر رشوت لینے یا ناجائز پیسہ وصول کرنے کا کوئی الزام نہیں ہے۔

جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس سید شہباز علی رضوی پر مشتمل بینچ کے فیصلے کے مطابق 'دلچسپ بات یہ ہے کہ نیب نے ہمارے سامنے واضح طور پر یہ اعتراف کیا کہ درخواست گزار پر یہ الزام عائد نہیں کیا کہ انہوں نے اپنے خاندان کے نام پر اثاثے بنانے کے لیے رشوت یا کوئی ایسی ناجائز ذرائع سے رقم وصول کی ہو'۔

مزید پڑھیں: 'شہباز شریف نے رات کے اندھیرے میں فرار ہونے کی کوشش کی'

بینچ نے گزشتہ 22 اپریل کو ایک مختصر آرڈر کے ذریعے شہباز شریف کی ضمانت منظور کی تھی اور ضمانت کے مچلکے پیش کرنے کے بعد انہیں جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔

لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ڈویژن بینچ کے الگ الگ فیصلوں کے بعد شہباز شریف کی ضمانت کا فیصلہ کرنے کے لیے تین ججز پر مشتمل فل بینچ تشکیل دیا تھا۔

ڈویژن بینچ کے سربراہ جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے ضمانت کی اجازت دے دی تھی جبکہ اس کے دوسرے رکن جسٹس اسجد جاوید غورال نے انہیں خارج کردیا تھا۔

فل بینچ کے جاری کردہ 28 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جعلی ٹیلی گرافک ٹرانسفر (ایف ٹی ٹی ایس) کے ذریعے بے نامی املاک جمع کرنے کے نیب کے الزامات پر بحث کرتے ہوئے نوٹ کیا گیا کہ درخواست گزار کی آمدنی کے ذرائع تلاش کرنے کے لیے کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں۔

نیب نے یہ بھی الزام لگایا کہ پارٹی کے حامیوں نے مسلم لیگ (ن) کے فنڈز میں کچھ رقم دی تھی جو شہباز شریف کے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'شہباز شریف کو وزیراعظم کے حکم پر باہر جانے سے روکا گیا'

ججز نے مشاہدہ کیا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ نیب کی غیر سنجیدہ کوشش انہیں اس کیس کو ثابت کرنے کی ذمہ داری سے بری نہیں کرے گی کیونکہ بے گناہی کا شک ہمیشہ ملزم کے حق میں ہوتا ہے'۔

ججز نے مشاہدہ کیا کہ 'اس میں مزید یہ بھی حکم دیا گیا درخواست گزار کے ذاتی نام پر خریدی گئی یا کسی بھی جائیداد اور براہ راست ثبوت کی عدم موجودگی میں اس کے کنبہ کے افراد درخواست گزار پر انحصار کرتے ہیں یا اس کے برعکس اور یہ رقم جرم یا منی لانڈرنگ کے لیے ایف ٹی ٹیز سے درخواست گزار کے اکاؤنٹ میں داخل ہوئی ہو، ہم استغاثہ کے کیسز کو سچ قبول نہیں کرسکتے ہیں'۔

بینچ نے مشاہدہ کیا کہ 'بعض اوقات، ہم اخلاقیات کے اصولوں کی بھی رہنمائی کرتے ہیں اور ان کی تائید کرتے ہیں لیکن جب بات کسی فرد کی آزادی کے سوال کی ہوتی ہے تو ہم ان بنیادی اصولوں کو بھی مدنظر رکھتے ہیں جن کے تحت ضمانت منظور یا مسترد کی جائے'۔

ججز نے ریمارکس دیئے کہ 'ہم گرفتاری کے بعد ضمانت کی منظوری کے اصولوں پر نظریں بند نہیں کرسکتے، آیا درخواست گزار کا معاملہ اپنے جرم کی مزید تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے'۔

مزید پڑھیں: حکومت کا شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کے فیصلے کےخلاف عدالت جانے کا اعلان

ریفری بینچ کی حیثیت سے کام کرنے والے فل بینچ نے شہباز شریف کی طبیعت خراب ہونے اور مقدمے کی کارروائی میں غیر مبہم تاخیر کی وجہ سے جسٹس اسجد جاوید غورال کے اس نظریہ کی تائید کی۔

تاہم تینوں ججز نے پچھلے ڈویژن بینچ کے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر سے اتفاق کیا اور شہباز شریف کی ضمانت کو میرٹ پر منظور کیا۔

مریم اورنگزیب کا ردعمل

مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو وزیر اعظم عمران خان، ان کے معاون شہزاد اکبر اور تمام سرکاری ترجمانوں کے منہ پر طمانچہ قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیصلے نے وزیر اعظم عمران خان کے 'جعلی بیانیہ' کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا۔

وہ ایف آئی اے کے دفاتر کے باہر میڈیا سے گفتگو کررہی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں