'وفاقی کابینہ کی کمیٹی نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی سفارش کردی'

اپ ڈیٹ 13 مئ 2021
شیخ رشید نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کی—فوٹو: ڈان نیوز
شیخ رشید نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کی—فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ کی 3 رکنی ذیلی کمیٹی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کی سفارش کردی ہے۔

اسلام آباد میں اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کا اجلاس ہوا اور شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وفاقی کابینہ کو سفارش کردی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: نیب نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے درخواست دی ہے، شیخ رشید

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 25 بھی یہ کہتا ہے کہ جب باقی ملزم ای سی ایل پر ہوں تو کسی ایک ملزم سے خصوصی سلوک نہیں ہوسکتا ہے، عدالت کا ایک فیصلہ بلیک لسٹ کے حوالے سے ہے لیکن شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ پر نہیں ہے بلکہ 7 مئی 2021 کے آرڈر پر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 3 چیزیں ہوتی ہیں، نمبر ایک بلیک لسٹ جو پاسپورٹ آفس ڈالتا ہے، دوسرا پی این آئی ایل جو ایف آئی اے ڈالتا ہے اور تیسرا کابینہ کی تین رکنی کمیٹی کو فیصلہ کرکے کابینہ کو بھیجنا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تین رکنی کمیٹی نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کو درست تصور کیا اور متفقہ طور پر کابینہ کو سفارش کردی ہے کہ شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا جائے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ خود نواز شریف کے ضمانتی ہیں اور ان کی جانب سے ہمارے پاس کوئی درخواست نہیں آئی تاہم شہباز شریف 15 دن کے اندر ہمیں نظرثانی کی درخواست دے سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کو 90 روز میں ان کی درخواست کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور وہاں شہباز شریف خود بھی پیش ہونا چاہے تو پیش ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی طبی مسئلے کی بات نہیں کی گئی جبکہ پہلا کیسز طبی بنیاد پر تھا۔

مزید پڑھیں: نیب کا شہباز شریف کی ضمانت کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ

شیخ رشید نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے تینوں اراکین نے اتفاق رائے سے ویڈیو لنک کے ذریعے شہباز شریف کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کی نیب کی درخواست منظور کی اور کابینہ کو سفارش کی ہے، شہباز شریف کے پاس نظر ثانی کا حق ہے۔

کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی کی نظرثانی درخواست کا انتظار کر رہے ہیں اور انہیں بھی خود پیش ہونے کی اجازت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کے 1677 افراد کو 16 ایم پی او کے تحت رہا کردیا گیا، 280 ایف آئی آرز درج ہیں، یہ لوگ قانونی عمل سے گزریں گے۔

انہوں نے کہا کہ 16 ایم پی او کے تحت 1074 افراد کو عدالت نے رہا کیا اور باقی 1677 افراد حکومت نے رہا کردیے ہیں اور 25 لوگوں کے کیسز بھی ختم کردیے گئے ہیں۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سے قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ کیا ہے اور 1100 قیدیوں کو سعودی عرب سے پاکستان منتقل کریں گے، جن میں چھوٹے کیسز کے حامل افراد بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے درخواست کی ہے اور یہ بات کابینہ کے سامنے بھی لے کر جائیں گے کہ اگر وزارت کو ایک ارب روپے مل گئے تو سیکڑوں ملزم رہا ہوسکتے ہیں لیکن 30 ملزموں کو ہم واپس نہیں لے کر آئیں گے جو ڈرگ یا سزائے موت کے قیدی ہیں۔

حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ کھل سکتا ہے، شہزاد اکبر

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے کہا کہ نیب کی جانب سے کیس میں شہباز شریف کے علاوہ دو اور لوگوں کا نام بھی فائل ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کا نام کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے اس لیے سفارش کیا ہے کہ شہباز شریف کا مقدمہ لاہور کی احتساب عدالت میں چل رہا ہے جو نہ صرف ٹی ٹیز اور منی لانڈرنگ کا کیس ہے بلکہ ان کے 3 یا 4 مزید کیسز بھی ہیں، اور وہ رمضان شوگر ملز، چوہدری شوگر مل اور ایف آئی اے کے منی لانڈرنگ کے کیسز میں ملزم ہیں۔

مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کا شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ کیس کی دوبارہ تفتیش کا فیصلہ

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ یہ مختلف کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں اور اب اگر شہباز شریف کو باہر جانے دیا جاتا ہے تو یہ تمام کیسز التوا کا شکار ہوجاتے ہیں اور دیگر ملزمان کی حق تلفی ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ جو ادارہ انوسٹی گیشن کررہا ہے اس کی صوابدید ہے کہ وہ جب مناسب سمجھے تو ای سی ایل کے لیے نام تجویز کرسکتا ہے، ان کی درخواست کو وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے کابینہ کو بھیج دیا ہے اور کابینہ منظوری دے گی تو نام ای سی ایل پر آئے گا اور نظر ثانی کا عمل بھی ہے۔

حدیبیہ پیپر کیس کی دوبارہ تفتیش کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہماری قانونی کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا، ایک ماضی کا غیر حل شدہ کیس ہے جو حدیبیہ پیپر مل کیس ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ رائے آئی ہے کہ کیس نہیں کھل سکتا تو واضح کردوں کہ نئے ثبوت آئیں تو کوئی بھی نیا کیس کھل سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) یہ بیانیہ بنا رہی ہے کہ حدیبیہ کیس میں ان کی بریت ہوئی ہے جو درست نہیں ہے، اس کیس میں ان کی بریت نہیں ہوئی، بری آپ اس وقت ہوتے ہیں جب مقدمہ چلے اور شہادتیں پیش ہوں لیکن یہ کیس ٹیکنیکل بنیاد پر بند ہوا۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ حدیبیہ کیس منی لانڈرنگ کا مدر آف آل کیسز ہے اور جب یہ کیس 2000 میں داخل ہوا تھا تو یہ جدہ چلے گئے تھے اور کیس کبھی عدالت میں نہیں چلا اور جب واپس آئے تو میل ملاپ کرکے کیس بند کرادیا کیونکہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق وفاق کے وکیل اور نیب نے دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر یہ کیس ٹیکنیکل بنیاد پر بند ہونا تھا، پھر جس ادارے کو اپیل کرنا تھی اس نے وقت پر اپیل نہیں کی اور بعد میں سپریم کورٹ نے یہی کہنا تھا کہ وقت گزر چکا ہے، اس لیے شواہد پر یہ کیس بند نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: حدیبیہ پیپر ملز کیس: نیب کی درخواست مسترد

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی قانونی ٹیم، اٹارنی جنرل اور نجی ماہرین سے مشاورت کی اور ہمارا ماننا ہے کہ ٹیکنیکل بنیاد پر بند ہوا کیس دوبارہ کھل سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان نے 90 کی دہائی اور 2000 کے بعد ترقی کی اور جب ان کیسز کا فیصلہ ہونے جارہا ہے تو ان کا بھی فیصلہ ہونا چاہیے اور اس میں ان کے سمدھی اسحٰق ڈار کا اعترافی بیان بھی موجود ہے جو بنیاد ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں