غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری سے 14 بچوں سمیت 56 فلسطینی جاں بحق

اپ ڈیٹ 13 مئ 2021
اسرائیل کے فضائی حملوں کے نتیجے میں کھنڈر بن جانے والی ایک رہائشی عمارت  —تصویر: رائٹرز
اسرائیل کے فضائی حملوں کے نتیجے میں کھنڈر بن جانے والی ایک رہائشی عمارت —تصویر: رائٹرز

غزہ میں گزشتہ شب سے اسرائیلی فورسز کی بھاری بمباری کا سلسلہ جاری ہے اس دوران اسرائیلی فضائیہ نے محصور علاقوں کے مختلف مقامات پر شدید حملے کیے گئے۔

خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی وزارت صحت کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 56 سے زائد ہو چکی ہے جن میں 14 بچے شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں 300 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

دوسری جانب 6 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے جبکہ غزہ سے تقریباً1500 راکٹ فائر کیے گئے اور اسرائیل میں مختلف مقامات نشانہ بنائے گئے۔

اس سے قبل قطری نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کی رپورٹ میں غزہ کے صحت حکام کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ پیر کی رات سے اسرائیل کے فضائی حملوں کے نتیجے میں اب تک 13 بچوں سمیت 43 فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ تقریباً 300 زخمی ہیں۔

مقامی ذرائع نے بتایا کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے فلسطینی عسکری گروہ سے تعلق رکھنے والے مختلف مقامات کے علاہ سیکیورٹی اور پولیس کی عمارتوں کو نشانہ بنایا جبکہ ایک فلسطینی شخص اپنے 5 سالہ بیٹے حاملہ بیوی سمیت گھر پر ہونے والے اسرائیلی حملے میں جاں بحق ہوگیا۔

حماس کی وزارت داخلہ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ساحلی پٹی پر واقع پولیس کی تمام عمارتیں تباہ ہوگئی ہیں۔

دوسری جانب حماس نے غزہ کے مضافات میں ایک اسرائیلی فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا جبکہ اس سے قبل اس حملے میں 3 فوجیوں کے زخمی ہونے کی اطلاع تھی۔

دوسری جانب رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جھڑپوں کے نتیجے میں 5 اسرائیلی شہریوں کے ہلاک جبکہ 10 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ: حماس کے ٹھکانوں پر اسرائیلی حملے، 9 بچوں سمیت 25 جاں بحق

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق غزہ میں ایک 13 منزلہ رہائشی عمارت میں حماس کا سویلین دفتر تھا جو اسرائیل کے درجنوں فضائی حملوں میں سے ایک حملے کے بعد زمین بوس ہوگئی جبکہ اسرائیل میں غزہ سے 70 کلومیٹر دور تک سائرن اور دھماکوں کی آوازیں آئیں۔

اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں فضائی حملوں میں جاں بحق ہونے والے افراد میں سے 16 عسکریت پسند شامل ہیں۔

شہریوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکام نے غزہ میں حماس اور عسکریت پسندوں کے خلاف فضائی حملوں کی تعداد اور طاقت بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب مصر کے حکام نے کہا کہ وہ جنگ بندی کے لیے بات چیت کی کوشش کر رہے ہیں لیکن تشدد کی رفتار زور پکڑ رہی ہے۔

مزید پڑھیں: عالمی برادری، فلسطین کی موجودہ صورت حال پر اسرائیل کا احتساب کرے، سعودی عرب

اپنے شہریوں کی ہلاکت سے پہلے ہی اسرائیلی فوج نے اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ کی سرحد پر مزید دستے بھجوا رہے ہیں جبکہ وزیر دفاع نے 5 ہزار ریزور فوجیوں کو متحرک کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

راکٹس اور فضائی حملوں کا یہ سلسلہ مسجد الاقصیٰ کمپاؤنڈ میں اسرائیلی فورسز کے دھاوا بولنے کے باعث پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال کے بعد شروع ہوا۔

دوسری جانب کشیدگی میں اضافے کے بعد اسرائیل میں رہائش پذیر ہزاروں عرب برادریوں نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ میں اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر کیے جانے والے حملوں کی مذمت کی۔

یہ حالیہ برسوں میں فلسطینی شہریوں کی جانب سے اسرائیل میں کیے گئے بڑے مظاہروں میں سے ایک تھا۔

یہ بھی پڑھیں: تکینکی خامیوں کے باعث فلسطین سے متعلق پوسٹ حذف ہوئیں، ٹوئٹر و انسٹا گرام

خیال رہے کہ سال 2007 میں غزہ کا کنٹرول حماس کے پاس آجانے کے بعد سے اب تک حماس اور اسرائیل تین جنگیں لڑ چکے ہیں، حالیہ جھڑپیں قطر، مصر اور دیگر ممالک کی ثالثی کی مدد سے چند روز کے بعد ختم ہوجاتی تھیں۔

اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں میں ایک ہزار فلسطینی زخمی

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں موجود اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ 7 سے 10 مئی تک مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز ایک ہزار فلسطینیوں کو زخمی کرچکی ہیں۔

ایک بیان میں ادارے کا کہنا تھا کہ ان میں سے 735 افراد ربر کی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق 657 فلسطینیوں کو زیادہ تر جسم کے بالائی حصوں پر زخم آئے جبکہ ایک فلسطینی شہری اپنی آنکھ سے محروم ہوگیا۔

علاوہ ازیں اقوامِ متحدہ کے خصوصی کوآرڈینیٹر برائے مشرق وسطیٰ امن عمل ٹور وینزلینڈ نے کہا کہ 'فائرنگ کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے'۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک مکمل جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں، تمام فریقین کے رہنماؤں کو کشیدگی کم کرنے کی ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ غزہ میں جنگ کی قیمت تباہ کن ہوگی جو عوام ادا کر رہے ہیں، اقوامِ متحدہ تمام فریقین کے ساتھ مل کر تحمل کی بحالی کے لیے کام کر رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں