کووڈ کو شکست دینے کے بعد مختلف پیچیدگیوں کا سامنا کرنے والے افراد میں چڑچڑے پن، تھکاوٹ اور دماغی افعال میں تنزلی جیسی علامات عام ہوتی ہیں، جن سے روزمرہ کی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتےہ یں۔

لانگ کووڈ کی اصطلاح ایسے مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو بیماری سے تو صحتیاب ہوجاتے ہیں مگر ان کو کئی ہفتوں یا مہینوں تک مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

مایو کلینکل کی اس تحقیق میں 100 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جو کووڈ 19 کو شکست دے چکے تھے۔

اس مقصد کے لیے مایو کلینکل نے کووڈ 19 ایکٹیویٹی ری ہیبلیٹیشن پروگرام کو تشکیل دیا تھا جس کا مقصد پوسٹ کووڈ 19 سینڈروم یا لانگ کووڈ کے شکار افراد کا علاج کرنا تھا۔

ان مریضوں کی جانچ پڑتال اور علاج یکم جون سے 31 دسمبر 2020 کے دوران ہوا۔

ان افراد کی اوسط عمر 45 سال تھی اور ان میں 68 فیصد خواتین تھیں اور ان کا معائنہ بیماری کے 93 دن بعد کیا گیا تھا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان مریضوں میں سب سے عام علامت تھکاوٹ تھی۔

تحقیق کے مطابق 80 فیصد نے غیرمعمولی تھکاوٹ کو رپورٹ کیا تھا جبکہ 59 فیصد کو نظام تنفس کے مسائل اور اتنے ہی افراد کو ذہنی و دماغی مسائل کا سامنا ہوا۔

ایک تہائی سے زیادہ افراد نے روزمرہ کی عام سرگرمیوں کو کرنے میں مشکلات کو رپورٹ کیا۔

محققین نے بتایا کہ تحقیق میں شامل بیشتر افراد کو کووڈ 19 سے پہلے کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں تھا جبکہ متعدد کو کووڈ 19 کی سنگین شدت سے متعلق علامات کا سامنا بھی نہیں ہوا ن کی وجہ سے انہیں ہسپتال جانا پڑتا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مختلف علامات کے باوجود بیشتر مریضوں کے لیبارٹری اور امیجنگ نتائج معمول کے مطابق تھے، جو لانگ کووڈ کی تشخیص کے چیلنجز میں سے ایک ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ان علامات کے نتیجے میں روزمرہ کی زندگی کی جانب لوٹنے کی کوشش کے دوران مریضوں پر نمایاں منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

محققین نے بتایا کہ ایسے بیشتر مریضوں کو جسمانی تھراپی یا دماغی بحالی نو کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دماغی تنزلی کی روک تھام کی جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیشتر مریضوں کو تھکاوٹ سامنا تھا مگر 50 فیصد سے زیادہ نے سوچنے میں مشکلات کو بھی رپورٹ کیا جس کو ذہنی دھند کی اصطلاح سے جانا جاتا ہے۔

اسی طرح ایک تہائی مریضوں کے لیے روزمرہ کے کام مشکل ہوگئے بلکہ کئی ماہ تک ان کے لیے معمول کی دفتری زندگی کی بحالی بھی ممکن نہیں ہوسکی۔

ماہرین نے بتایا کہ وبا کے آگے بڑھنے کے ساتھ ہمیں ایسے مزید مریضوں کی توقع ہے جن کو صحتیابی کے بعد بھی کئی ہفتوں یا مہینوں تک مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے اور طبی نگہداشت فراہم کرنے والوں کے لیے اس حوالے سے تیار ہونا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں