سنکیانگ کے معاملے پر عالمی طاقتوں کی چین پر تنقید

13 مئ 2021
سنکیانگ کے معاملے پر عالمی طاقتوں اور چین کے درمیان ایک عرصے سے کشیدگی جاری ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
سنکیانگ کے معاملے پر عالمی طاقتوں اور چین کے درمیان ایک عرصے سے کشیدگی جاری ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جا رہے سلوک پر امریکا، جرمنی اور برطانیہ نے اقوام متحدہ میں چین پر تنقید کی ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ان ممالک نے ایک ورچوئل پروگرام کی میزبانی کی حالانکہ چین نے لابنگ کی تھی تاکہ وہ رکن ممالک کو اس معاملے سے دور رکھ سکے۔

مزید پڑھیں: جی-7 ممالک کا چین کے خلاف مشترکہ محاذ تیار کرنے پر غور

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے اس تقریب سے خطاب کیا جس میں 50 ممالک نے شرکت کی۔

انہوں نے کہا کہ جب تک چین کی حکومت سنکیانگ میں انسانیت سوز مظالم اور ایغور اور دیگر اقلیتوں کی نسل کشی کے خلاف اپنے جرائم بند نہیں کرتی، تب تک ہم اس کے خلاف بات کرتے رہیں گے۔

مغربی ریاستوں اور انسانی حقوق کے گروپ سنکیانگ کے حکام پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ کیمپوں میں ایغور اور دیگر اقلیتوں کو حراست میں رکھتے ہیں اور ان پر تشدد کرتے ہیں، بیجنگ نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور مذہبی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ان کیمپوں کو پیشہ ورانہ تربیت کی سہولیات قرار دیا ہے۔

تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ سنکیانگ میں لوگوں پر تشدد کیا جارہا ہے جبکہ خواتین کی زبردستی نس بندی کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چین نامہ: بیجنگ میں حلال کھانے کی تلاش (دوسری قسط)

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل ایگنس کالامارڈ نے اس تقریب میں بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ ایغور اور بڑی تعداد میں مسلم نسلی اقلیتوں کو زبردستی حراست میں لیا گیا ہے۔

پچھلے ہفتے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے نام ایک مراسلے میں چین کے امریکی مشن نے ان الزامات کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اورکہا تھا کہ منتظمین پر چین کے ساتھ محاذ آرائی کا مظاہرہ کرنے کے جنون کا الزام عائد کیا۔

ایک چینی سفارتکار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تمام رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ چین مخالف اس پروگرام میں حصہ نہ لیں۔

چین کے سفارت کار گوا جیاکن نے کہا کہ چین کے پاس سنکیانگ میں چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے، سنکیانگ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، ہم سنکیانگ کا دورہ کرنے کے لیے سب کو دعوت دیتے ہیں لیکن ہم جھوٹ پر مبنی اور جرم کے تصور کے ساتھ کسی بھی قسم کی تفتیش کی مخالفت کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایغور مسلمانوں کا معاملہ، امریکا نے چینی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کردیں

اس پروگرام کا اہتمام جرمنی، امریکا اور برطانیہ نے کیا تھا اور کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور متعدد دیگر یورپی ممالک کے تعاون سے اسے منعقد کیا تھا۔ جرمنی کے امریکی سفیر کرسٹوف ہیوسن نے کہا کہ اس پروگرام کی سرپرستی کرنے والے ممالک کو بڑے پیمانے پر چینی خطرات" کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن انہوں نے ان خطرات کی تفصیل نہیں بتائی۔

اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر باربرا وُڈ ورڈ نے سنکیانگ کی صورتحال کو موجودہ دور کے انسانی حقوق کے بدترین بحرانوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ثبوت مخصوص نسلی گروہوں کے جبر و استبداد کے پروگرام کی نشاندہی کرتے ہیں۔

انہوں نے چین سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ مچیل بیچلیٹ کی ان کیمپوں تک فوری اور معنی خیز رسائی یقینی بنائے۔

تبصرے (0) بند ہیں