غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری، جاں بحق فلسطینیوں کی تعداد 192 ہوگئی

اپ ڈیٹ 17 مئ 2021
غزہ میں 2014 کے بعد بدترین کارروائی کی گئی—فوٹو: اے پی
غزہ میں 2014 کے بعد بدترین کارروائی کی گئی—فوٹو: اے پی
اسرائیلی حملوں میں بلند رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے—تصویر: رائٹز
اسرائیلی حملوں میں بلند رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے—تصویر: رائٹز

فلسطین پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے اور غزہ سٹی پر کارروائیوں میں تین عمارت تباہ کردی گئیں اور 10 بچوں سمیت 42 افراد جاں بحق ہوگئے جس کے بعد جاں بحق فلسطینیوں کی تعداد 188 ہوگئی۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے عالمی کوششوں کے باوجود غزہ پر کارروائیاں جاری رکھنے کا اشارہ دیا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ حملوں پوری قوت کے ساتھ جاری ہیں اور مزید وقت لگے گا، اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ کی حکمران جماعت حماس کو بھارتی قیمت چکانی پڑے۔

غزہ میں 2014 کے بعد ایک دن میں سب سے بدترین حملے ہوئے جہاں بچوں اور خواتین سمیت 44 افراد جاں بحق ہوئے۔

خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں اب تک 58 بچوں سمیت 192 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے علی الصبح غزہ سٹی میں گھروں پر بمباری کی اور شہری گھروں کا ملبہ ہٹا کر ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس سے قبل رائٹرز اور الجزیرہ کی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ اتوار کے روز فضائی حملوں میں اسرائیلی فوج نے مغربی غزہ سٹی کے علاقے خان یونس میں حماس کے سیاسی و عسکری ونگ کے سربراہ یحیٰ السنور کے گھر کو نشانہ بنایا، مذکورہ رہنما کو 2011 میں اسرئیل کی جیل سے رہائی ملی تھی۔

علاوہ ازیں اسرائیلی میزائلوں نے پناہ گزینوں کے ایک کیمپ کو بھی نشانہ بنا دیا جس میں 8 بچوں سمیت 10 فلسطینی جاں بحق ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی غزہ پربمباری جاری، اے پی، الجزیرہ سمیت میڈیا کے دفاتر بھی تباہ

قبل ازیں ایک حملے میں ایک 12 منزلہ الجلا نامی رہائشی عمارت کو مسمار کردیا گیا تھا جہاں الجزیرہ، امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پرین (اے پی) سمیت میڈیا کے دیگر اداروں کے دفاتر موجود تھے، عمارت کے مالک کو پیشگی حملے کے اطلاع دینے کے بعد تباہ کیا گیا تھا۔

دوسری جانب حماس کے راکٹ حملوں کے نتیجے میں اسرائیل میں 2 بچوں سمیت 10 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔

الجلا عمارت کی تباہی کے ردِ عمل میں حماس نے رات بھر میں اسرائیل میں 120 راکٹ داغے جس میں اکثر کو اسرائیلی دفاعی نظام نے راستے میں ہی تباہ کردیا جبکہ درجنوں غزہ میں ہی جا گرے۔

دوسری جانب مغربی کنارے میں بھی ہلاکت خیز جھڑپیں جاری ہیں جس میں اب تک اسرائیلی فوجیوں کے حملوں میں 12 فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔

جب تک ضرورت ہے حملے جاری رہیں گے، اسرائیلی وزیراعظم

دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ جب تک ضرورت ہے غزہ کی پٹی میں حملے جاری رہیں گے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جس عمارت میں متعدد میڈیا ہاؤسز تھے اسے حماس سمیت مختلف فلسطینی گروہ استعمال کررہے تھے۔

اسرائیلی وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل غزہ پر کیے جانے والے حملوں میں بچوں اور شہریوں کی ہلاکت سے بچاؤ کے لیے 'خصوصی کیئر' کررہا ہے۔

غزہ پر اسرائیلی حملے

خیال رہے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے ہی مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں اسرائیلیوں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جبکہ اس دوران دنیا کے 3 بڑے مذاہب کے لیے انتہائی مقدس شہر میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس پر پاکستان نے شدید مذمت بھی کی ہے۔

مقبوضہ بیت المقدس میں جمعہ (7 مئی) سے جاری پرتشدد کارروائیاں سال 2017 کے بعد بدترین ہیں جس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی طویل عرصے سے جاری کوششوں نے مزید کشیدگی پیدا کی۔

یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ایک طویل عرصے سے جاری قانونی کیس میں متعدد فلسطینی خاندان کو بے دخل کیا گیا ہے، اس کیس میں فلسطینیوں کی جانب سے دائر اپیل پر پیر (10 مئی) کو سماعت ہونی تھی جسے وزارت انصاف نے کشیدگی کے باعث مؤخر کردیا تھا۔

اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر حالیہ حملے 7 مئی کی شب سے جاری ہیں جب فلسطینی شہری مسجد الاقصیٰ میں رمضان المبارک کے آخری جمعے کی عبادات میں مصروف تھے اور اسرائیلی فورسز کے حملے میں 205 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔

جس کے اگلے روز 8 مئی کو مسجدالاقصیٰ میں دوبارہ عبادت کی گئی لیکن فلسطینی ہلالِ احمر کے مطابق بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی فورسز نے پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 121 فلسطینی زخمی ہوئے، ان میں سے اکثر پر ربڑ کی گولیاں اور گرنیڈز برسائے گئے تھے جبکہ اسرائیلی فورسز کے مطابق ان کے 17 اہلکار زخمی ہوئے۔

بعدازاں 9 مئی کو بھی بیت المقدس میں مسجد الاقصٰی کے قریب ایک مرتبہ پھر اسرائیلی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے۔

10 مئی کی صبح اسرائیلی فورسز نے ایک مرتبہ پھر مسجد الاقصیٰ کے قریب پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 395 فلسطینی زخمی ہوئے تھے جن میں سے 200 سے زائد کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج کے حملے کے نتیجے میں 300 فلسطینی شہریوں کے زخمی ہونے کے بعد حماس نے اسرائیل میں درجنوں راکٹس فائر کیے تھے جس میں ایک بیرج بھی شامل تھا جس نے بیت المقدس سے کہیں دور فضائی حملوں کے سائرن بند کردیے تھے۔

اسرائیل نے راکٹ حملوں کو جواز بنا کر جنگی طیاروں سے غزہ پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں حماس کے کمانڈر سمیت 25 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

بعد ازاں 11 مئی کی شب بھی اسرائیلی فضائیہ نے ایک مرتبہ پھر راکٹ حملوں کو جواز بنا کر غزہ میں بمباری کی جس کے نتیجے میں 13 بچوں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 43 تک پہنچ گئی، یہ راکٹ حملے بھی حماس کی جانب سے کیے گئے تھے جس میں 5 اسرائیلیوں کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔

غزہ کی وزارت صحت نے 12 مئی کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 48 ہوگئی ہے جن میں 14 بچے شامل ہیں اور زخمیوں کی تعداد 300 سے زائد ہوگئی ہے۔

دوسری جانب 6 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے تھے جبکہ غزہ سے تقریباً 1500 راکٹ فائر کیے گئے اور اسرائیل میں مختلف مقامات نشانہ بنائے گئے۔

اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق 7 سے 10 مئی تک مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں میں ایک ہزار فلسطینی زخمی ہوچکے تھے۔

اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے عید الفطر کے روز بھی غزہ میں بلند و بالا عمارتوں اور دیگر مقامات پر مزید فضائی حملے کیے، جس کے نتیجے میں پیر سے اب تک جاں بحق افراد کی تعداد 103 تک پہنچ گئی جس میں 24 بچے بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطین کی صورتحال پر او آئی سی کی وزارتی کمیٹی کا اجلاس طلب

مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملوں اور حماس کے راکٹ کی وجہ سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال 'وسیع پیمانے پر جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے'۔

اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر پرتشدد کارروائیوں کے بعد عالمی برداری کی جانب سے ان حملوں کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔

مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ حساس تصور کیے جانے والی مسجد الاقصیٰ اس وقت سے تنازع کی زد میں ہے جب 1967 میں اسرائیل نے بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے بعد میں اسرائیل کا حصہ بنا لیا تھا، اسرائیلی پورے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت اور یہودیوں کے عقائد کا مرکز قرار دیتے ہیں لیکن فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں