عیدالفطر پر بھی اسرائیل کے غزہ میں حملے، 24 بچوں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 103 تک پہنچ گئی

اپ ڈیٹ 14 مئ 2021
اسرائیل نے غزہ کی سرحد کے ساتھ جنگی فوج تیار کرلی ہے - فوٹو:رائٹرز
اسرائیل نے غزہ کی سرحد کے ساتھ جنگی فوج تیار کرلی ہے - فوٹو:رائٹرز

اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے عید الفطر کے روز بھی غزہ میں بلند و بالا عمارتوں اور دیگر مقامات پر مزید فضائی حملے کیے، جس کے نتیجے میں پیر سے اب تک جاں بحق افراد کی تعداد 103 تک پہنچ گئی ہے جس میں 24 بچے بھی شامل ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق پیر کی رات سے شروع ہونے والے فضائی حملوں میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 24 بچوں سمیت 103 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور 580 سے زائد فلسطینی زخمی ہیں۔

علاوہ ازیں اسرائیلی حکام نے بتایا کہ انہوں نے غزہ کے مشرقی علاقوں کے قریب اضافی فوجی دستے تعینات کردیئے ہیں۔

دوسری جانب اسرائیل کے اندر متعدد شہروں میں بھی یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پُرتشدد تصادم کی خبریں سامنے آئی ہیں۔

مزید پڑھیں: مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں، اقوام متحدہ

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے میڈیکل ورکرز کا کہنا تھا کہ تازہ فضائی حملوں میں اسرائیل نے غزہ کے مرکزی علاقے میں 6 منزلہ عمارت کو تباہ کردیا۔

علاوہ ازیں اسرائیلی فورسز کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کے مشرقی علاقے جراح اور بعد ازاں غزہ میں فلسطینیوں پر کیے جانے والے حالیہ حملوں کے بعد یہودیوں اور عرب اقلیت کے درمیان تشدد کی نئی لہر اسرائیل کے دیگر شہروں تک پھیل گئی ہے۔

غزہ میں طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس وبا کے دوران پہلے سے ہی شدید دباؤ کا شکار ہسپتالوں کو مزید مشکلات کا سامنا ہے۔

اسرائیل نے غزہ کی سرحد کے ساتھ فوج تعینات کردی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ 'زمینی کارروائیوں کی تیاری کے مختلف مراحل' میں ہے۔

ایک فوجی ترجمان نے کہا کہ یہ اقدام 2014 اور اس سے قبل 2008-2009 میں اسرائیل کے غزہ میں حملوں کی یاد کو تازہ کرے گا۔

لیفٹیننٹ کرنل جوناتھن کونریکس نے کہا کہ 'چیف آف اسٹاف ان تیاریوں کا معائنہ کر رہے ہیں اور رہنمائی فراہم کر رہے ہیں'۔

غزہ میں صحت حکام نے بتایا کہ وہ راتوں رات متعدد افراد کی اموات کی تحقیقات کر رہے ہیں جو مبینہ طور پر زہریلی گیس کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ لاشوں سے حاصل کیے جانے والے نمونوں کی جانچ کی جارہی ہے اور ان کے پاس ابھی کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ: حماس کے ٹھکانوں پر اسرائیلی حملے، 9 بچوں سمیت 25 جاں بحق

جہاں ایک جانب اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تشدد مزید بے قابو ہونے کے خطرات منڈلارہے ہیں وہیں واشنگٹن نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک ایلچی، ہیڈی امر کو بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ لڑائی 'بہت جلد ختم ہوجائے گی'،ایک برطانوی وزیر نے اسرائیل اور حماس پر زور دیا کہ وہ اس تصادم سے ' پیچھے ہٹیں'۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے 'حماس اور کی فوجی صلاحیتوں اور غزہ کی دیگر تنظیموں پر حملے جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ حماس کو امریکا اور اسرائیل ایک دہشت گرد گروہ کے طور پر مانتے ہیں۔

حماس کے رہنما اسمعٰیل ہانیہ کا کہنا تھا کہ 'دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کھلی ہوئی ہے'۔

واضح رہے کہ اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ متعدد مقامات سے اسرائیل کی جانب سے سیکڑوں راکٹ فائر کیے گئے جس کے نتیجے میں 7 اسرائیلیوں کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کا دعیویٰ کیا گیا ہے۔

فلسطینوں پر اسرائیلی حملے

خیال رہے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے ہی مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں اسرائیلیوں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جبکہ اس دوران دنیا کے 3 بڑے مذاہب کے لیے انتہائی مقدس شہر میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس پر پاکستان نے شدید مذمت بھی کی ہے۔

مقبوضہ بیت المقدس میں جمعہ (7 مئی) سے جاری پرتشدد کارروائیاں سال 2017 کے بعد بدترین ہیں جس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی طویل عرصے سے جاری کوششوں نے مزید کشیدگی پیدا کی۔

یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ایک طویل عرصے سے جاری قانونی کیس میں متعدد فلسطینی خاندان کو بے دخل کیا گیا ہے، اس کیس میں فلسطینیوں کی جانب سے دائر اپیل پر پیر (10 مئی) کو سماعت ہونی تھی جسے وزارت انصاف نے کشیدگی کے باعث مؤخر کردیا تھا۔

اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر حالیہ حملے 7 مئی کی شب سے جاری ہیں جب فلسطینی شہری مسجد الاقصیٰ میں رمضان المبارک کے آخری جمعے کی عبادات میں مصروف تھے اور اسرائیلی فورسز کے حملے میں 205 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔

جس کے اگلے روز 8 مئی کو مسجدالاقصیٰ میں دوبارہ عبادت کی گئی لیکن فلسطینی ہلالِ احمر کے مطابق بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی فورسز نے پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 121 فلسطینی زخمی ہوئے، ان میں سے اکثر پر ربڑ کی گولیاں اور گرنیڈز برسائے گئے تھے جبکہ اسرائیلی فورسز کے مطابق ان کے 17 اہلکار زخمی ہوئے۔

بعدازاں 9 مئی کو بھی بیت المقدس میں مسجد الاقصٰی کے قریب ایک مرتبہ پھر اسرائیلی فورسز کی پُر تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے۔

10 مئی کی صبح اسرائیلی فورسز نے ایک مرتبہ پھر مسجد الاقصیٰ کے قریب پرتشدد کاررائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 395 فلسطینی زخمی ہوئے تھے جن میں سے 200 سے زائد کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج کے حملے کے نتیجے میں 300 فلسطینی شہریوں کے زخمی ہونے کے بعد حماس نے اسرائیل میں درجنوں راکٹس فائر کیے تھے جس میں ایک بیرج بھی شامل تھا جس نے بیت المقدس سے کہیں دور فضائی حملوں کے سائرن بند کردیے تھے۔

اسرائیل نے راکٹ حملوں کو جواز بنا کر جنگی طیاروں سے غزہ پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں حماس کے کمانڈر سمیت 25 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

بعد ازاں 11 مئی کی شب بھی اسرائیلی فضائیہ نے ایک مرتبہ پھر راکٹ حملوں کو جواز بنا کر غزہ میں بمباری کی جس کے نتیجے میں 13 بچوں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 43 تک پہنچ گئی، یہ راکٹ حملے بھی حماس کی جانب سے کیے گئے تھے جس میں 5 اسرائیلیوں کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔

غزہ کی وزارت صحت نے 12 مئی کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 48 ہوگئی ہے جن میں 14 بچے شامل ہیں اور زخمیوں کی تعداد 300 سے زائد ہوگئی ہے۔

دوسری جانب 6 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے جبکہ غزہ سے تقریباً1500 راکٹ فائر کیے گئے اور اسرائیل میں مختلف مقامات نشانہ بنائے گئے۔

اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق 7 سے 10 مئی تک مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں میں ایک ہزار فلسطینی زخمی ہوچکے تھے۔

مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملوں اور حماس کے راکٹ کی وجہ سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال 'وسیع پیمانے پر جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے'۔

اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر پرتشدد کارروائیوں کے بعد عالمی برداری کی جانب سے ان حملوں کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔

مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ حساس تصور کیے جانے والی مسجد الاقصیٰ اس وقت سے تنازع کی زد میں ہے جب 1967 میں اسرائیل نے بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے بعد میں اسرائیل کا حصہ بنا لیا تھا، اسرائیلی پورے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت اور یہودیوں کے عقائد کا مرکز قرار دیتے ہیں لیکن فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں