'ماضی کے مقرر کردہ ڈیپوٹیشن الاؤنس کی ادائیگی سے انکار آئین کی خلاف ورزی ہے'

اپ ڈیٹ 20 مئ 2021
2007 کے فنانس ڈویژن کے او ایم کی بنیاد پر تمام سرکاری ملازمین کو ڈیپوٹیشن الاؤنس ادا کیا گیا تھا، سپریم کورٹ - سپریم کورٹ ویب سائٹ
2007 کے فنانس ڈویژن کے او ایم کی بنیاد پر تمام سرکاری ملازمین کو ڈیپوٹیشن الاؤنس ادا کیا گیا تھا، سپریم کورٹ - سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے مطابق ڈیپوٹیشن پر تعینات سرکاری ملازمین کے درمیان تعصب کرتے ہوئے ان کے لیے ماضی کے مطابق مقرر کردہ الاؤنس کی ادائیگی سے انکار کرنا آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سید مظہر علی اکبر نقوی کے لکھے ہوئے فیصلے کے مطابق 'یہ قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے کہ ڈیپوٹیشن پر تعینات سرکاری ملازمین کے ایک سیٹ کو ڈیپوٹیشن الاؤنس کی اجازت ماضی کے مطابق دی جاتی ہے اور دوسرے اس سے محروم ہیں، جو دوسری صورت میں آئین کے آرٹیکل 25 کے منافی ہو گا'۔

جسٹس مظہر علی، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ کے رکن تھے جنہوں نے فیڈرل سروس ٹریبونل (ایف ایس ٹی) کے فیصلے کے خلاف، سیکریٹری فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اسلام آباد کی طرف سے اپیل پر سماعت کی تھی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان ہائیکورٹ کے حکم، حکومتی یقین دہانی پر سرکاری ملازمین کا دھرنا ختم

ایف ایس ٹی نے پوسٹل گروپ کے کسی افسر کی جانب سے ماضی کے مطابق ڈیپوٹیشن الاؤنس کی ادائیگی کے لیے درخواست کو برقرار رکھا تھا۔

یہ تنازع اس وقت سامنے آیا جب محکمہ ریونیو نے 11 اکتوبر 2018 کو ایف ایس ٹی کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس میں زینت بنگش (مدعا علیہ) کی جانب سے دائر کردہ سروس اپیل کو قبول کیا اور کہا گیا کہ وہ ماضی کے مطابق ڈیپوٹیشن الاؤنس کی حقدار ہے۔

زینت بنگنش پوسٹل گروپ کی ایک افسر ہیں جنہوں نے 1994 سے 2001 تک ڈیپوٹیشن پر ایف بی آر میں ملازمت کی تھی تاہم انہیں ڈیپوٹیشن الاؤنس ادا نہیں کیا گیا تھا۔

اپنے سابقہ محکمے میں واپسی کے بعد انہوں نے 27 نومبر 2012 کو ایف ایس ٹی آرڈر کی بنیاد پر ڈیپوٹیشن الاؤنس کی ادائیگی کے لیے ایف بی آر سے رجوع کیا جسے عدالت عظمی نے برقرار رکھا۔

تاہم زینت بنگش کی درخواست کو ایف بی آر نے 12 مئی 2015 کو اس درخواست پر مسترد کردیا تھا کہ یکم جولائی 2007 کو دفتر کے میمورنڈم (او ایم) نے واضح کیا تھا کہ یہ سہولت صرف تازہ کیسز میں قابل قبول ہے اور یہ پرانے کیسز پر لاگو نہیں ہے۔

اس کے بعد افسر نے اپیل اتھارٹی کے سامنے اپیل دائر کی۔

محکمے نے فروری 2016 میں معاملہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھیج دیا تاہم اپیل کا فیصلہ کبھی نہیں ہوا۔

اس کے بعد زینت بنگش نے ایف ایس ٹی سے رابطہ کیا جس نے ڈیپوٹیشن الاؤنس کی ادائیگی کے لیے ان کی درخواست قبول کرلی تھی تاہم ایف بی آر نے اس فیصلے کو عدالت عظمٰی کے سامنے چیلنج کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ: ہزاروں سرکاری ملازمین کا تنخواہوں میں اضافے کیلئے احتجاجی دھرنا

اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے یاد دلایا کہ اس سے قبل 2 اپریل 1999 کے او ایم نے یہ واضح کیا تھا کہ ڈیپوٹیشن الاؤنس صرف خارجہ سروس کے افسران کے لیے قابل ادا تھی نہ کہ وزارتوں اور ڈویژنز کے نمائندوں کے لیے لیکن اس سے قبل کے ایف ایس ٹی آرڈر، جسے عدالت عظمی نے برقرار رکھا تھا، میں یہ واضح کردیا گیا تھا کہ وزارتوں اور ڈویژنز کے تمام افسران جن کو تبادلے اور ڈیپوٹیشن پر تعینات کیا گیا تھا وہ ڈیپوٹیشن الاؤنس کے حقدار ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ صرف ایک سوال جس کی وضاحت طلب ہے وہ یہ ہے کہ او ایم ماضی کے مطابق ہے یا اس کا مقصد صرف تازہ کیسز تھے۔

اس میں کہا گیا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ 2007 کے فنانس ڈویژن کے او ایم کی بنیاد پر تمام سرکاری ملازمین کو چاہے نئے ہوں یا پرانے، ڈیپوٹیشن الاؤنس ادا کیا گیا تھا اور اس بنیاد پر ان میں کوئی فرق نہیں کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں