عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کی 4 اقسام کو نئے نام دے دیے

اپ ڈیٹ 02 جون 2021
وائرس کی اقسام کی تشخیص کی ترتیب کے مطابق انہیں یونانی حروف تہجی کے تحت الفا، بیٹا، گاما اور ڈیلٹا کے نام دیے گئے ہیں— فائل فوٹو: رائٹرز
وائرس کی اقسام کی تشخیص کی ترتیب کے مطابق انہیں یونانی حروف تہجی کے تحت الفا، بیٹا، گاما اور ڈیلٹا کے نام دیے گئے ہیں— فائل فوٹو: رائٹرز

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے الفانومیرک ناموں پر مشتمل کورونا وائرس کی مختلف اقسام کو یونانی حروف پر مبنی نئے نام دے دیے تاکہ اس حوالے سے بات چیت کو سادہ بنایا جاسکے۔

ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے تنقید کے باعث نئے ناموں کا اعلان کیا کہ سائنسدانوں کی جانب سے نئی اقسام کو دیے گئے نام بہت پیچیدہ ہیں جیسا کہ جنوبی افریقی ویرئنٹ کو بی.1.351، 501 وائی۔وی 2 اور 20 ایچ/ 501 وائے۔ وی 2 کے مختلف نام دیے گئے تھے۔

عالمی وبا شروع ہونے کے بعد سے لوگوں کی جانب سے وائرس کو بیان کرنے کے لیے جن ناموں کا استعمال کیا جارہا ہے وہ تنازع کو بڑھاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کی نئی اقسام ایک دوسرے سے کتنی مختلف ہیں؟

سابق امریکی صدر نے نئے کورونا وائرس کو 'دی چائنا وائرس' کہا تھا جس سے یہ تشویش پیدا ہوگئی تھی کہ ایسے ناموں کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے حریف ملک کو الزام دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ لوگوں یا قومیتوں کے ناموں پر کورونا کی اقسام کو نام نہ دیں۔

عالمی ادارہ صحت نے یہ بھی کہا کہ کورونا وائرس کی سامنے آنے والی نئی اقسام کے ساتھ ممالک کے نام منسوب کرنے سے بھی گریز کیا جائے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی جانب سے کورونا وائرس کے 4 ویرئنٹس کو تشویش کا باعث قرار دیا گیا ہے اور عوامی سطح پر انہیں عام طور پر برطانوی، جنوبی افریقی، برازیلی اور بھارتی اقسام کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اب عالمی ادارہ صحت نے ان کی تشخیص کی ترتیب کے مطابق انہیں یونانی حروف تہجی کے تحت الفا، بیٹا، گاما اور ڈیلٹا کے نام دیے ہیں۔

اسی طرح اس وائرس کی دیگر اقسام کو بھی یونانی حروف تہجی کے تحت نام دیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا کی وہ 10 اقسام جو عالمی ادارہ صحت کی توجہ کا مرکز ہیں

مذکورہ فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ 'اگرچہ سائنسی ناموں کے فوائد موجود ہیں لیکن انہیں پکارنا اور یاد رکھنا مشکل ہوسکتا ہے اور اس سے غلط بیانی کا خدشہ رہتا ہے'۔

بیکٹیریا کے ماہر مارک پیلن کے مطابق یونانی حروف تہجی کا انتخاب کئی مہینوں پر غور و فکر کے بعد ہوا جس میں یونان کے دیوتاؤں اور ایجاد کردہ سوڈو کلاسیکل ناموں جیسے دیگر امکانات پر بھی غور کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک اور خیال یہ تھا کہ ان ویرئنٹس کو VOC1، VOC2 کہا جائے لیکن ان کے تلفظ کا مسئلہ درپیش تھا۔

ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ گمشدہ مذاہب، پودوں اور پھلوں کے ناموں پر بھی غور کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کی نئی اقسام ویکسینز کی افادیت میں کمی کا باعث قرار

تاریخی طور پر اکثر اوقات وائرس کو ان جگہوں سے منسوب کیا جاتا ہے جہاں سے ان کے سامنے آنے کا زیادہ امکان پایا جائے، جیسے ایبولا وائرس کا نام کانگو کے دریا کے نام پر رکھا گیا ہے۔

تاہم یہ نقصان دہ اور غلط ثابت ہوسکتا ہے جیسا کہ 1918 میں 'ہسپانوی فلو' کی عالمی وبا کے وقت ہوا جس کا ابتدائی مقام نامعلوم ہے حالانکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہسپانوی فلو کے ابتدائی کیسز امریکی ریاست کنساس میں سامنے آئے تھے۔

ڈبلیو ایچ او کی ماہر وبائی امراض ماریہ وان نے کہا کہ کسی بھی ملک کو وائرس کے ویرئنٹس کی تشخیص اور رپورٹنگ کا ذمہ دار نہیں ٹھہرانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں