کوہاٹ میں پی ٹی ایم سربراہ 8 گھنٹے زیر حراست رہنے کے بعد رہا

منظور پشتین کو ماضی میں بھی کئی مقدمات میں گرفتار کیا جا چکا ہے— فائل فوٹو: سراج الدین
منظور پشتین کو ماضی میں بھی کئی مقدمات میں گرفتار کیا جا چکا ہے— فائل فوٹو: سراج الدین

خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں پولیس نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) سربراہ منظور پشتین کو تقریبا 8 گھنٹے نظر بند رکھنے کے بعد رہا کر دیا۔

کوہاٹ کے ضلعی پولیس آفیسر سہیل خالد نے منظور پشتین کی رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مختصر مدت کے لیے پولیس نے تحویل میں رکھا تھا۔

مزید پڑھیں: حکومت کی ایک مرتبہ پھر پی ٹی ایم کو مذاکرات کی پیشکش

پی ٹی ایم کے ایک رہنما احتسام افغان نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ہمیں ابھی کوہاٹ سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ پولیس حکام نے پی ٹی ایم کے سربراہ اور دیگر کو رہا کر دیا ہے۔

احتساب افغان کے مطابق جمعہ کو صبح علی الصبح گمبٹ تھانے کی حدود میں خوشحال گڑھ پل پر پولیس نے منظور پشتین اور دیگر کارکنوں کو اس وقت روک لیا تھا جب وہ دھرنے میں شرکت کے لیے بنوں جارہے تھے۔

اس سے قبل پی ٹی ایم کے ایک ذرائع نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ پشتین نے ایک مقامی رہائشی کے قتل کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں بنوں کے علاقے جانی خیل کے علاقے میں جاری دھرنے میں شرکت کا منصوبہ بنایا تھا۔

پی ٹی ایم رکن نے کہا کہ ہمارے سربراہ کی گاڑی کو خوشحال گڑھ پل پر سیکیورٹی کلیئرنس کی آڑ میں روک لیا گیا تھا اور پولیس نے منظور پشین کی گرفتاری کے حوالے سے کسی بھی قسم کی تفصیلات نہیں بتائیں۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور سے پی ٹی ایم کے 8 کارکنان گرفتار

پولیس کے ایک ذرائع نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ یہ گرفتاری کسی پرانے مقدمے یا پھر نئی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد عمل میں لکائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے اس وقت کہا تھا کہ منظور پشتین کی گرفتاری کے بارے میں تفصیلات وہ بعد میں جاری کریں گے۔

ماضی میں گرفتاری

مارچ میں پولیس نے پشتین اور ان کے 3 دوستوں کے خلاف پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی کے الزام میں غداری کا مقدمہ درج کیا تھا۔

البتہ واقعے کے بارے میں ایک ٹوئٹ میں منظور پشتین نے بتایا تھا کہ ان پر اور ان کے ساتھیوں پر 20 سے 25 افراد کے ایک گروہ نے اس وقت حملہ کیا جب وہ اجلاسوں میں شرکت کے بعد بٹگرام سے اسلام آباد واپس جارہے تھے۔

اس سے قبل پی ٹی ایم سربراہ پر بغاوت کے متعدد مقدمات درج کیے جا چکے ہیں اور انہیں گزشتہ سال بھی گرفتار کیا گیا تھا، یہ گرفتاری ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ایک اجتماع سے خطاب کے بعد عمل میں لائی گئی تھی جہاں انہوں نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ 1973 کے آئین نے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جبکہ ریاست کے بارے میں توہین آمیز الفاظ بھی ادا کیے تھے۔

ابتدائی طور پر منظور پشتین کے خلاف ڈیرہ اسمٰعیل خان پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 506 (مجرمانہ دھمکی دینے کی سزا)، 153-اے (مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کو فروغ دینے)، 120-بی (مجرمانہ سازش کی سزا)، 124(بغاوت) اور 123-اے (ملک کے قیام کی مذمت اور اس کی خودمختاری کے خاتمے کی وکالت) کے تحت مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی ایم سے مذاکرات سے قبل حکومت خڑقمر حملہ کیس واپس لینے کی خواہاں

ڈیرہ اسمٰعیل خان کی ضلعی عدالت نے بغاوت کے دو مقدمات میں ان کی ضمانت کی درخواستوں کو منظور کرنے کے بعد انہیں 25 فروری 2020 کو جیل سے رہا کیا گیا تھا۔

15 فروری 2020 کو ضلع ٹانک کی سیشن عدالت نے پشتین کی بغاوت کے 2 مقدمات میں ضمانت منظور کی تھی جبکہ ڈیرہ اسمٰعیل خان کی عدالت نے بھی اسی طرح کے مقدمے میں ان کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

اس سے قبل مذکورہ ماہ کے اوائل میں پی ٹی ایم کے سربراہ کی بغاوت کے دو دیگر مقدمات میں ڈیرہ اسمٰعیل خان کی عدالت نے 8 فروری کو ضمانت کی منظوری دی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں