رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

مغربی ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ افراد کو کورونا کی ویکسین لگائی جارہی ہے۔ اس دوران مابعد کورونا دنیا کے حوالے سے کی گئی پیش گوئیاں بھی حقیقت سے متصادم ثابت ہورہی ہیں۔

اس وبا کی ابتدا میں جب اکثر مغربی ممالک اس سے شدید متاثر تھے اور اس وبا سے بچنے کا بھی کوئی طریقہ نظر نہیں آرہا تھا اس دوران اکثر اداروں نے اپنے دفتری عملے کو دفاتر سے گھروں میں بھیج دیا تھا۔ گھر سے کام کرنا وبا سے محفوظ رہتے ہوئے کام کرنے کا واحد طریقہ تھا۔ امریکا اور اکثر مغربی ممالک میں دفتری عمارتیں خالی ہوچکی تھیں اور ان کی راہداریوں اور کانفرنس رومز میں خاموشی نے بسیرا کر رکھا تھا۔

اب جبکہ کورونا کی ویکسین متعارف ہوچکی ہے تو یہ ادارے اپنے عملے کو واپس دفاتر میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم ایسا نظر آرہا ہے کہ امریکا میں ملازمین دوبارہ دفاتر میں کام کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ اس ضمن میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ان ملازمین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو دفتر میں کل وقتی کام کے بجائے اپنی نوکریاں چھوڑنے کو ترجیح دے گی۔

مزید پڑھیے: مائیکروسافٹ کا ملازمین کو مستقل بنیادوں پر گھر سے کام کی اجازت دینے کا اعلان

ظاہری طور پر لگتا ہے کہ ایک سال سے زائد عرصے تک گھر پر رہتے ہوئے کام کرنے سے کئی لوگوں نے اپنی روزمرہ زندگی کے حوالے سے کچھ سوچ بچار کیا ہے۔ اس دوران انہیں دفتر تک کا طویل راستہ طے نہیں کرنا پڑا جو نیویارک جیسے شہر میں 2 گھنٹے طویل بھی ہوسکتا ہے۔ انہیں دفتر کے لیے کپڑے نہیں خریدنے پڑے اور اس دوران دفتر میں ہونے والے کھانے کے اخراجات کی بھی بچت ہوئی۔ سب سے اہم بات یہ کہ انہیں دفتر میں پریشان کرنے والے ساتھیوں اور باس سے نمٹنا نہیں پڑا۔

رابطے کے ذرائع میں آنے والی جدت اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے وہ آسانی کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے بات چیت کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکنالوجی ڈیوائسز کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ کام کے دن ہر وقت دستیاب ہیں۔ اکثر لوگوں کے لیے کورونا سے پہلے والے معمولات پر واپس جانا خارج از امکان ہے، ایسے لوگ گزشتہ طرزِ زندگی پر واپس جانے کے بجائے کوئی نیا کام تلاش کرنے کو ترجیح دیں گے۔

امریکا میں افرادی قوت کی کمی کے باعث یہ امکان موجود ہے کہ انہیں کوئی ایسی نوکری مل جائے جہاں آجیر انہیں مکمل طور گھر سے کام کرنے یا بھر ایک ہائبرڈ ماڈل اختیار کرنے کی اجازت دے جس میں ہفتے میں ایک یا دو دن گھر سے کام کی سہولت ہو۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے محقق راج چودھری نے اپنے تحقیقی مقالے Our Work From Anywhere Future میں لکھا ہے کہ یہ غیر مغربی ممالک کے باصلاحیت افراد کے لیے اچھی خبر ہے۔ اس کی وجہ بھی سادہ ہے اور وہ یہ کہ اگر مغرب میں ورک فرام ہوم غالب آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے سے لوگوں کو ملازمت پر رکھا جاسکتا ہے۔

اس کو مزید سادہ انداز میں یوں سمجھیے کہ اس طرح کام کرنے والوں کو ملازمت کے مقام تک جانے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ملازمتیں خود کام کرنے والوں تک پہنچ جائیں گی۔ اگر کوئی ادارہ سافٹ ویئر انجینیئر کی تلاش میں ہے اور اس ادارے کے لیے ورک فرام ہوم ایک عمومی چیز ہے تو پھر وہ کراچی سے بھی کسی انجینیئر کو ملازمت پر رکھ سکتے ہیں۔

راج چودھری کے مطابق یوں ’امپلائمنٹ ویزا‘ کی ضرورت بھی ختم ہوجائے گی۔ اس طرح کسی کو بھی ایچ 1 بی ویزا کے حصول کی قطار میں نہیں لگنا پڑے گا اور ملازمین کہیں سے بھی اور فوری طور پر اپنے کام کا آغاز کرسکیں گے۔

مزید پڑھیے: ورک فرام ہوم کا تجربہ: پاکستان کی نیوز ویب سائٹس کے مدیران کیا کہتے ہیں؟

لیکن ہر چیز کی طرح اس کے بھی کچھ منفی پہلو ہیں۔ اپنے ملازمین کو ورک فرام ہوم کی اجازت دینے والے کچھ ادارے تنخواہوں میں کٹوتی پر غور کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر فیس بک نے اپنے ملازمین کو کہا ہے کہ وہ کہیں سے بھی کام کرسکتے ہیں لیکن سلی کون ویلی جیسی مہنگی جگہ سے باہر رہ کر کام کرنے والوں کو اس مقام کے حساب سے تنخواہ دی جائے گی جہاں سے وہ کام کر رہے ہوں گے۔

اگر اس اصول کو عالمی سطح پر اختیار کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان سے کام کرنے والے ملازم کو پاکستان کے حساب سے ہی تنخواہ دی جائے گی۔ مغربی ممالک کی معیشتوں نے پہلے سے ہی ان حالات کے حوالے سے تیاری شروع کردی ہے۔

حالیہ دنوں میں جی 7 ممالک نے اداروں کے کام کرنے کے مقام سے قطع نظر ان پر عائد کم از کم ٹیکس کے حوالے سے منظوری دی ہے۔ یہ قدم ایک ایسے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اٹھایا گیا ہے کہ جہاں غیر مغربی ممالک کی حکومتیں ٹیکس چھوٹ کے ذریعے مغربی اداروں کو اس بات پر راغب کریں گی کہ وہ ان غیر مغربی ممالک کے افراد کو ملازمت پر رکھیں۔

وہ ملک جہاں ایک ادارہ موجود ہوگا (جو کہ اکثر مغربی ملک ہی ہوگا) وہ ٹیکس کا تعین کرے گا اور اسے اس ادارے سے وصول کرے گا۔ نوکریوں کے حصول کا مقابلہ اب عالمی سطح پر ہوتا نظر آرہا ہے اور مغربی ممالک اس میں آگے رہنے کی پوری کوشش کریں گے۔

پاکستان بھی اپنے باصلاحیت افراد کو منظم کرنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھا سکتا ہے تاکہ وہ غیر ملکی اداروں کی نظر میں آسکیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو متحرک کیا جائے کہ وہ بیرونِ ملک پاکستانی ٹیلنٹ کو پیش کریں اور ساتھ ہی ایسا نظام مرتب کیا جائے جس کے تحت اداروں کو پاکستانی ملازمیں رکھنے کے لیے قانونی تقاضوں کو پورا کرنے میں آسانی ہو۔

مزید پڑھیے: پاکستانی نوجوان افرادی قوت کو کس طرح اپنے حق میں استعمال کریں؟

کہیں بھی بیٹھ کر کام کرنے کا رجحان اب تقویت حاصل کررہا ہے۔ مکمل تبدیلی میں کچھ وقت تو لگ سکتا ہے کیونکہ ابھی ملازمین کی کارکردگی کے حوالے سے بحث جاری ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مستقبل ورک فرام ہوم کا ہی ہے۔

جیسے جیسے یہ مغربی معاشروں کو تبدیل کررہا ہے ویسے ہی یہ ان غیر مغربی معاشروں کو بھی تبدیل کرسکتا ہے جو باصلاحیت افراد کی عالمی منڈی میں داخل ہورہے ہیں۔ آبادی کا ایک حصہ ایسا ضرور رہے گا جو نیویارک یا لندن آورز کے مطابق ہی کام کرے گا اور ساری رات کام کرکے دن بھر نیند پوری کرے گا۔ سخت ویزا قوانین مغربی ممالک میں سفر کو مزید مشکل بنادیں گے۔ لیکن ثقافتی قابلیت کا تقاضہ ہوگا کہ انسان اس جگہ کی مجازی واقفیت ضرور رکھے جہاں وہ کام کرتا ہو لیکن وہاں کبھی گیا نہیں ہو۔

دفتر سے دُور بیٹھ کر کام کرنے یا پھر ’ورک فرام اینی ویئر‘ پاکستانیوں کے لیے ایک بڑا موقع ہے۔ حکومتِ پاکستان اور چیمبرز آف کامرس کو اس پر توجہ دے کر ملازمین کے متلاشی مغربی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ دنیا ایک بڑی تبدیلی کے دہانے پر ہے، جہاں ملازمت کا تصور بھی تبدیل ہونے والا ہے۔ باصلاحیت پاکستانی افراد جغرافیائی حدود کی وجہ سے نقصان میں رہتے تھے تاہم اب ان کے پاس خود کو منوانے کا موقع ہے۔


یہ مضمون 9 جون 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Talha Jul 15, 2021 03:04pm
Yaqeenan…….. Aik Achiee Tehreer...