طالبعلم کے ساتھ مبینہ بدفعلی: مفتی عزیز الرحمٰن کے خلاف مقدمہ درج

شکایت کنندہ نے مزید کہا کہ ان کے پاس جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا—فوٹو: اسکرین شاٹ
شکایت کنندہ نے مزید کہا کہ ان کے پاس جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا—فوٹو: اسکرین شاٹ

لاہور پولیس نے مدرسے کے طالب سے مبینہ بدفعلی کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جمعیت علمائے اسلام لاہور کے نائب امیر اور جامعہ منظور الاسلامیہ کے برطرف عہدیدار مفتی عزیز الرحمٰن کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں مفتی عزیز الرحمٰن کو ایک لڑکے سے مبینہ بدفعلی کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

مزیدپڑھیں: چونیاں: بچوں کے ریپ اور قتل کے مجرم کو ایک اور مقدمے میں سزائے موت سنادی گئی

شکایت پر مفتی عزیز الرحمٰن کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 377 (غیر فطری جرائم) اور دفعہ 506 (مجرمانہ دھمکی دینے کی سزا) کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔

17 جون کو درج پہلی انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق متاثرہ طالب علم نے بتایا کہ اسے جامعہ منظور الاسلامیہ میں 2013 میں داخلہ ملا تھا۔

انہوں نے کہا کہ امتحانات کے دوران مفتی عزیز الرحمٰن نے ان پر اور ان کے دوست طالب علم پر امتحان کے دوران کسی اور کو امتحان دلانے کا الزام لگایا تھا۔

انہوں نے شکایت میں کہا کہ اس کے ساتھ ہی مجھ پر وفاق مدارس میں 3 سال تک امتحانات دینے پر پابندی عائد کردی گئی۔

شکایت کنندہ نے کہا کہ انہوں نے مفتی عزیز الرحمٰن سے معاف کردینے کی التجا کی۔

متاثرہ لڑکے نے کہا کہ مفتی عزیز الرحمٰن نے کہا کہ اگر جنسی حرکتوں سے انہیں 'خوش' کردوں تو کچھ سوچ سکتے ہیں۔

مزیدپڑھیں: ریپ کیسز کے تیز ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کا منصوبہ تاخیر کا شکار

شکایت کنندہ نے مزید کہا کہ ان کے پاس جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

ایف آئی آر میں شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ مفتی عزیز الرحمٰن نے دعویٰ کیا تھا کہ ان پر پابندی ختم ہوجائے گی اور امتحانات میں بھی پاس ہو جاؤ گے۔

شکایت کنندہ نے مزید الزام لگایا کہ 'تین سال گزر گئے اور اس عرصے میں ہر جمعے کو بدفعلی کرتے اور لیکن مجھ پر پابندی ختم ہوئی نہ امتحانات میں پاس ہوا بلکہ مزید بلیک میل کرنا شروع کردیا۔

متاثرہ طالب علم کے مطابق اس نے مدرسے کی انتظامیہ کو شکایت کی تو انہوں نے ماننے سے انکار کردیا کہ مفتی عزیز الرحمٰن 'بزرگ اور نیک سیرت شخص' ہیں بلکہ انتظامیہ نے الٹا مجھے ہی جھوٹا قرار دے دیا۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ اس کے بعد مفتی عزیز الرحمٰن کی بدفعلی کی ریکارڈنگ پیش کی اور وفاق المدارس العربیہ کے ناظم کو دکھائی جس کے بعد مفتی عزیز الرحمٰن نے مجھے جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ ویڈیو اور آڈیو کی بنیاد پر مدرسے کی انتظامیہ نے مفتی عزیز الرحمٰن کو فارغ کردیا جس کے بعد انہیں غصہ آگیا۔

مزیدپڑھیں: موٹروے ریپ کیس: ملزمان پر 3 مارچ کو فرد جرم عائد کی جائے گی، عدالت

انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد سے مفتی عزیز الرحمٰن اور ان کے بیٹے کی جانب سے سنگین نتائج کی دھکمی دی جارہی ہیں۔

چند روز قبل منظر عام پر آنے والی ویڈیو کے بعد سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے اور شہریوں نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر وائرل مفتی عزیز الرحمٰن نے اپنے پیغام میں کہا کہ انہیں اس معاملے میں گھسیٹا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر وہ 'ہوش میں' تھا تو لڑکا موبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے انہیں بتائے بغیر کیسے ویڈیو بنا سکتا تھا۔

مفتی عزیز الرحمٰن نے کہا کہ یہ ایک سازش ہے تاکہ انہیں مدرسے سے ہٹایا جائے۔

3 جون کو جامعہ منظور الاسلامیہ نے مفتی عزیز الرحمٰن کو ہٹا دیا تھا۔

اسد اللہ فاروق کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ محلے کے کچھ افراد مدرسے تشریف لائے اور انتظامیہ اور مفتی عزیز الرحمٰن کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی ویڈیو دکھائی جس کے بعد مفتی عزیز الرحمٰن کو برطرف کردیا گیا۔

مفتی عزیز الرحمٰن کو جاری لیٹر میں کہا گیا کہ شکایت اور انتظامیہ کے مابین مشاورت کے بعد آپ کو مدرسے کی تمام ذمہ داریوں سے برطرف کیا جاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں