پولیس نے مکانات مسمار کرنے کے خلاف بلاول ہاؤس کے باہر احتجاج ناکام بنا دیا

اپ ڈیٹ 22 جون 2021
حکومت آزادیِ اظہار رائے کا احترام کرتی ہے، وزیر اعلی نے واقعے کے بارے میں ایک اعلی سطحی کمیٹی قائم کردی ہے، ترجمان سندھ حکومت  - فوٹو:پی پی آئی
حکومت آزادیِ اظہار رائے کا احترام کرتی ہے، وزیر اعلی نے واقعے کے بارے میں ایک اعلی سطحی کمیٹی قائم کردی ہے، ترجمان سندھ حکومت - فوٹو:پی پی آئی

کراچی: انسداد تجاوزات آپریشن کے نام پر گجر اور اورنگی نالوں کے اطراف میں قائم مکانات منہدم کرنے کے خلاف متاثرین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بلاول ہاؤس کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

تاہم مظاہرین کے منتظمین کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے اور دو بسز کو قبضے میں لیتے ہوئے متعدد افراد کو حراست میں لیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے کسی بھی شخص کو حراست میں لینے یا تشدد کرنے سے انکار کردیا۔

ترجمان نے بتایا کہ اس واقعے پر وزیر اعلیٰ سندھ نے تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

کراچی بچاؤ تحریک (کے بی ٹی) کے کنوینر خرم نے بتایا کہ رکاوٹوں کے باوجود بہت سے مظاہرین، جن میں زیادہ تر نوجوان مرد اور خواتین شامل تھیں، بلاول ہاؤس کے قریب پہنچے جہاں پولیس نے انہیں روکا اور ان سے بینرز چھین کر 20 سے زائد افراد کو حراست میں لیا۔

مزید پڑھیں: کراچی: الہ دین پارک میں انسداد تجاوزات آپریشن، پولیس اور مظاہرین میں تصادم

واضح رہے کہ کے بی ٹی میں متاثرہ افراد کے علاوہ کئی گروپس / تنظیمیں شامل ہیں۔

اس کے بعد مظاہرین نے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کیا۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے خرم نے کہا کہ صبح سے ہی پولیس نے جارحانہ رویہ اپنایا ہوا تھا۔

انہوں نے مبینہ طور پر کوثر نیازی کالونی میں واقع ان کے دفتر پر چھاپہ مارا اور بینرز اور پرچے بھی چھین لیے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'چھاپے کا مقصد کے بی ٹی کے صدر عابد اصغر کو گرفتار کرنا تھا جو وہاں موجود نہیں تھا'۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس وہاں موجود رہی اور لوگوں کو بلاول ہاؤس جانے سے روکنے کی کوشش کی۔

ان کا دعوی تھا کہ بوٹ بیسن اور ساؤتھ سٹی ہسپتال کے قریب پولیس نے خواتین، بچوں اور مردوں کو لے جانے والی دو بسز کو ہائی جیک کیا جبکہ 20 سے 25 مظاہرین کو بلاول ہاؤس کے قریب حراست میں لیا گیا اور انہیں مختلف تھانوں میں منتقل کردیا گیا۔

تاہم ان میں سے چند کو بعد میں رہا کردیا گیا جو کے پی سی میں ہونے والے احتجاج میں شامل ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ اگر اورنگی ٹاؤن اور گجر نالوں کو محمود آباد نالہ کی طرز پر بحال کیا گیا تو 90 فیصد مکانات انہدام سے بچائے جاسکتے ہیں۔

خرم جو عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بھی ہیں، نے کہا کہ ان کا دوسرا مطالبہ معاوضے کی ادائیگی اور ان لوگوں کو متبادل رہائش کی فراہمی سے متعلق ہے، جن کے مکانات منہدم ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے متاثرہ افراد کو متبادل رہائش فراہم کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

پولیس نے گرفتاریوں سے انکار کردیا

ایس ایس پی ساؤتھ زبیر نذیر شیخ نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے کسی شخص کو حراست میں نہیں لیا اور نہ ہی اسے گرفتار کیا ہے۔

انہوں نے مظاہرین کے خلاف کی جانے والی کسی کارروائی سے بھی انکار کیا اور کہا کہ مظاہرین نے سڑک بند کردی تھی۔

پولیس نے انہیں 'پریس کلب' احتجاج کے باقاعدہ مقام پر جانے کا مشورہ دیا اور 'ریڈ زون' میں بھی احتجاج پر پابندی عائد کردی جس کے بعد مظاہرین کے پی سی کے لیے روانہ ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا کراچی میں 'پویلین اینڈ کلب' فوری مسمار کرنے کا حکم

ایک اور پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 4 خواتین سمیت 30 کے قریب مظاہرین کو حراست میں لے کر انہیں متعلقہ تھانے لایا گیا تھا اور بعد میں رہا کردیا گیا تھا۔

وزیراعلیٰ نے کمیٹی تشکیل دے دی

حکومت سندھ کے ترجمان بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بلاول ہاؤس کے باہر پولیس کی طرف سے احتجاج اور مظاہرین پر مبینہ تشدد کا نوٹس لے لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'حکومت سندھ اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرتی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے احتجاج اور مبینہ تشدد کے بارے میں ایک اعلیٰ سطح کمیٹی قائم کی ہے جو اس صورتحال کی تحقیقات کرے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں