کووڈ کو شکست دینے والے 50 فیصد سے زیادہ جوان افراد میں بیماری کی طویل المعیاد علامات موجود ہوتی ہیں۔

یہ بات ناروے میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

برجن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 16 سے 30 سال کے ایسے 312 کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں بیماری کی شدت معمولی تھی۔

یہ افراد ناروے میں کورونا کی پہلی لہر کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے جن میں سے 247 کو گھر میں رکھ کر علاج کیا گیا جبکہ 65 کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کو شکست دینے کے 6 ماہ بعد 61 فیصد افراد میں علامات کا تسلسل برقرار تھا جس کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

ان افراد میں 6 ماہ بعد موجود علامات میں سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی، تھکاوٹ، سانس لینے میں دشواری، توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات اور یادداشت کے مسائل سب سے عام تھیں۔

محققین نے بتایا کہ سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ 50 فیصد سے زیادہ 30 سال کی عمر تک کے جوان افراد میں معمولی بیماری کے 6 ماہ بعد بھی علامات موجود تھیں۔

انہوں نے کہا کہ گھروں میں آئسولیٹ ہونے والے ان مریضوں میں اینٹی باڈیز کی زیادہ سطح اور علامات کے تسلسل کا تعلق موجود تھا، علامات کا خطرہ بڑھانے والے دیگر عناصر میں دمہ یا پھیپھڑوں کی کوئی دائمی بیماری قابل ذکر ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ گھروں میں زیرعلاج رہنے والے کووڈ 19 کے 30 فیصد مریضوں میں تھکاوٹ کی علامت س سے عام تھی۔

16 سال سے کم عمر بچوں میں بالغ افراد کے مقابلے میں طویل المعیاد علامات کی تعداد بہت کم تھی۔

تاہم محققین کا کہنا تھا کہ یادداشت متاثر ہونے اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کالجوں یا یونیورسٹی میں زیرتعلیم نوجوانوں کے لیے تشویشناک علامات ہیں۔

انہوں نے کہ اس سے کووڈ 19 سے شکار ہوکر صحت پر مرتب ہونے والے طویل المعیاد منفی اثرات کی روک تھام کے لیے ویکسینیشن کی اہمیت کا بھی عندیہ ملتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر میڈیسین میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں