حکومت کا طویل مدتی سیاسی اثرات کے حامل ٹیکس اقدامات پر غور

اپ ڈیٹ 27 جون 2021
معاون خصوصی کے مطابق  زیادہ تر ترامیم کو حتمی شکل دے دی گئی ہے—فائل فوٹو: خالدہ حق
معاون خصوصی کے مطابق زیادہ تر ترامیم کو حتمی شکل دے دی گئی ہے—فائل فوٹو: خالدہ حق

اسلام آباد: حکومت کچھ ٹیکس تجاویز کے سیاسی و معاشی اثرات کا جائزہ لے رہی ہے جو قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ شوکت ترین کی طویل بجٹ تقریر کے باوجود اب تک زیر غور ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ وہ تمام ٹیکس واپس لے لیے گئے جو مہنگے تھے اس کے علاوہ میڈیکل الاؤنس پر استثنٰی، جی پی فنڈ، سستی خوراک اور اخباری ملازمین کے سفری الاؤنس کو بحال کردیا گیا ہے۔

باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کچھ ٹیکس تجاویز پر اعلیٰ سطح پر بحث ہوئی اور انہیں مجوزہ ترامیم کا حصہ بنانے سے قبل وزیراعظم عمران خان سے رائے لی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:موبائل کالز پر ایف ای ڈی میں اضافہ سب سے زیادہ غریب طبقے کو متاثر کرے گا

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے فنانس اینڈ ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود خان نے ڈان کو بتایا کہ 'ہم ترمیم شدہ بل منگل کے روز پارلیمان میں پیش کریں گے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ زیادہ تر ترامیم کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

اس میں زیادہ تر مسائل اسسٹنٹ کمشنر انکم ٹیکس کو ٹیکس نادہندگان کو گرفتار کرنے کا اختیار دینے سے متعلق تھے جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اختیارات سیلز اینڈ کسٹم ایکٹس کے تحت ٹیکس عہدیداروں کو پہلے ہی حاصل تھے۔

اس اختیار کا نفاذ انکم ٹیکس کے سلسلے میں بہت زیادہ تھا کیوں کہ خیال ہے کہ پاکستان میں ایک سے 2 کروڑ ٹیکس نادہندگان موجود ہیں۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے حال ہی میں ملک میں 70 لاکھ ٹیکس چوروں کی تفصیلات موجود ہونے کی تصدیق کی تھی۔

مزید پڑھیں:حکومت نے مالی سال 2021 کے پہلے 11 ماہ میں مزید 63 فیصد غیر ملکی قرضے حاصل کیے

وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ ان کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی ٹیکس چوروں کی گرفتاری کا فیصلہ کرے گی تاہم عہدیداران کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر اب بھی بات چیت جاری ہے جسے جلد حل کرلیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ہم اسے اور دیگر مسائل کو 27 جون تک حل کرلیں گے۔

دوسرا حل طلب مسئلہ بینکنگ ٹرانزیکشنز پر ٹیکس استثنٰی ختم کرنے کا ہے جس کے بارے میں ذرائع کا کہنا تھا کہ بینکنگ ٹرانزیکشن پر ٹیکس بحال کرنے کا معاملہ اب بھی زیر غور ہے، حکومت پہلے ہی اشیائے خورونوش پر ٹیکس کلیکشن ختم کرچکی ہے۔

ذرائع نے کہا کہ 'ایف بی آر کو بھی ٹیکس کلیکشن کی ضرورت ہے جس نے بینکنگ ٹرانزیکشنز پر 22 ارب روپے سے زائد کا وِد ہولڈنگ ٹیکس جمع کیا تاہم اب تک اس بات کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا کہ ٹیکس ختم کرنا ہے یا اسے بجٹ سے پہلے والی حیثیت پر بحال کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مئی میں 63 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ہوگیا

اسی طرح موبائل فون کالز پر بھی ٹیکس زیر غور ہے کابینہ کے خصوصی اجلاس میں ایف بی آر نے ٹیلی کام سیکٹر سے فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی کے تحت 70 ارب روپے اضافی آمدن کا تخمینہ لگایا تھا۔

اس میں کالز پر ایک روپے جبکہ ایس ایم ایس پر 0.10 روپے ایف ای ڈی کی تجویز دی گئی تھی جبکہ 5 روپے جی بی کے حساب سے انٹرنیٹ ڈیٹا پر بھی ایف ای ڈی لیوی کی تجویز کیا تھا۔

بعدازاں عوام کے دباؤ کے پیشِ نظر حکومت نے ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ سے لیوی کی تجویز واپس لے لی تھی تاہم ایف ای ڈی کو ہر 3 منٹ کی کل پر ایک روپے سے کم کر کے ہر 5 منٹ کی کال پر 70 پیسے کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں