سرکاری ہسپتالوں کی ادویات، مارکیٹ میں فروخت کرنے سے متعلق متعدد انکوائریز کا آغاز

30 جون 2021
ڈریپ نے چھاپوں کے دوران صحت کی سہولیات سے چوری کی جانے والی دوائیں پکڑنے کا دعویٰ کیا تھا۔ - فائل فوٹو:رائٹرز
ڈریپ نے چھاپوں کے دوران صحت کی سہولیات سے چوری کی جانے والی دوائیں پکڑنے کا دعویٰ کیا تھا۔ - فائل فوٹو:رائٹرز

کراچی: سرکاری ہسپتالوں سے چوری شدہ ادویات کراچی کی ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹوں میں بھاری مقدار میں فروخت ہونے کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکام نے تحقیقات کا آغاز کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) اور ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال کراچی کی انتظامیہ نے بھی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے عہدیداروں کے دعوے کے بعد اداروں کے اندر تفتیش کا آغاز کردیا۔

ڈریپ نے چھاپوں کے دوران صحت کی سہولیات سے چوری کی جانے والی ادویات پکڑنے کا دعویٰ کیا تھا جس پر واضح طور پر 'سندھ حکومت کی ملکیت' اور 'این آئی سی وی ڈی' کی مہر لگی تھی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد کے ہسپتال کو غزہ کی عمارت کے طور پر دکھانے پر پاکستان کا احتجاج

تاہم انہوں نے دعوٰی کیا کہ ان کی صحت کی سہولیات سے ادویات کی چوری 'ممکن نہیں' ہے۔

دریں اثنا محکمہ صحت سندھ نے بھی اس اسکینڈل کی مجرمانہ تحقیقات شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور صوبائی سیکریٹری صحت سے کہا گیا کہ وہ اس جرم کی تحقیقات کے لیے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) سے رجوع کریں جب کہ ان سے محکمہ جاتی سطح پر بھی تحقیقات کا آغاز کرنے کو کہا گیا تاکہ اُن عناصر کو بے نقاب کیا جاسکے جو لوگوں کو مفت ادویات سے محروم کررہے تھے۔

دوسری جانب این آئی سی وی ڈی اور سی ایچ کے انتظامیہ نے ادویات کے اسٹور سے مبینہ چوری کی تحقیقات کے لیے الگ انکوائری کمیٹیاں تشکیل دے دیں لیکن انہوں نے مزید کہا کہ سخت نگرانی کے نظام کی وجہ سے ان کے سسٹم سے ادویات کی چوری ممکن نہیں۔

'سی ایچ کے' کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اکرم سلطان نے کہا کہ 'میں نے حال ہی میں 'سی ایچ کے' کا عہدہ سنبھالا ہے اور ہر قسم کے چوری کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں اور میں نے دو سینئر اسسٹنٹ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سمیت 3 عہدیداروں پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے جو چوری کی رپورٹس پر ایک ہفتے کے اندر اندر تحقیقات کرکے اپنی رپورٹ پیش کریں گی۔

یہ بھی پڑھیں: مریض کو ناقص سروسز کی فراہمی پر عدالت کا ہسپتال پر جرمانہ

ان الزامات کی انکوائری کا اعلان کرتے ہوئے این آئی سی وی ڈی کے عہدیداروں نے کہا کہ برآمد شدہ ادویات پر ملنے والا اسٹیمپ وہ نہیں تھا جس کو وہ اپنی ادویات مارک کرنے کے لیے لگاتے ہیں لیکن ان کی کمیٹی یہ معلوم کرنے کے لیے بیچ نمبر اور انوائس چیک کرے گی کہ آیا یہ ادویات این آئی سی وی ڈی کی ہیں یا نہیں۔

دریں اثنا سندھ حکومت کے ایک ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ چار صوبائی اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسیاں، سندھ پولیس، انسداد بدعنوانی اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای)، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) پہلے ہی الگ الگ تحقیقات کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان سب نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں